يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَّصُوحًا عَسَىٰ رَبُّكُمْ أَن يُكَفِّرَ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ يَوْمَ لَا يُخْزِي اللَّهُ النَّبِيَّ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ ۖ نُورُهُمْ يَسْعَىٰ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی طرف توبہ کرو، خالص توبہ، تمھارا رب قریب ہے کہ تم سے تمھاری برائیاں دور کر دے اور تمھیں ایسے باغوں میں داخل کرے جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، جس دن اللہ نبی کو اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے، رسوا نہیں کرے گا، ان کا نور ان کے آگے اور ان کی دائیں طرفوں میں دوڑ رہا ہوگا، وہ کہہ رہے ہوں گے اے ہمارے رب! ہمارے لیے ہمارا نور پورا کر اور ہمیں بخش دے، یقیناً تو ہر چیز پر خوب قادر ہے۔
ف 10 یعنی ایسی توبہ جو دل سے ہو اور اس کے بعد پھر گناہ کرنے کی نیت نہ ہو۔ علامہ نووی ریاض الصالحین میں لکھتے ہیں :” علماء کا کہنا ہے کہ ہر گناہ سے توبہ کرنا واجب ہے اگر وہ گناہ اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ہے تو توبہ کی قبولیت کے لئے تین شرطیں ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی گناہ سے باز آئے۔ دوسری یہ کہ اس پر پشیمان ہو اور تیسری یہ کہ پختہ ارداہ کرے کہ آئندہ کبھی اس کا ارتکاب نہ کرے گا اگر ان تین شرطوں میں سے ایک کی بھی کمی ہوئی تو توبہ سجی نہ ہوگی اور اگر اس گناہ کا تعلق کسی آدمی سے ہیتو اس کی قبولیت کے لئے ان شرطوں کے علاوہ چوتھی شرط یہ بھی ہے کہ وہ اس آدمی کے دبائے ہوئے حق سے دست بردار ہو۔ اگر وہ مال یا جائیداد ہے تو اسے واپس کرے اور مگر قابل حد کام کیا ہے تو اپنے اوپر حد جاری کرنے کا موقع دے یا اس سے معافی طلب کرے جس پر تہمت لگائی ہے۔ ف 1 یعنی اس وقت جب وہ پل صراط پر چل رہے ہوں گے۔ چنانچہ اس کی رہنمائی میں وہ چل کر جنت میں داخل ہوں گے۔ (دیکھیے سورۃ حدیث آیت 12)