الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ۚ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّهُ ۚ وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا
مرد عورتوں پر نگران ہیں، اس وجہ سے کہ اللہ نے ان کے بعض کو بعض پر فضیلت عطا کی اور اس وجہ سے کہ انھوں نے اپنے مالوں سے خرچ کیا۔ پس نیک عورتیں فرماں بردار ہیں، غیرحاضری میں حفاظت کرنے والی ہیں، اس لیے کہ اللہ نے (انھیں) محفوظ رکھا اور وہ عورتیں جن کی نافرمانی سے تم ڈرتے ہو، سو انھیں نصیحت کرو اور بستروں میں ان سے الگ ہوجاؤ اور انھیں مارو، پھر اگر وہ تمھاری فرماں برداری کریں تو ان پر (زیادتی کا) کوئی راستہ تلاش نہ کرو، بے شک اللہ ہمیشہ سے بہت بلند، بہت بڑا ہے۔
ف 3 شریعت نے خانگی شیرازہ بندی کے لیے مرد کو گھر کا قوام (نگران ذمہ دار) قرار دیا ہے اور عورت کو اس کے ما تحت رکھا ہے۔، قرآن نے اس کی دو وجہیں بیان کی ہیں ایک تو یہ کہ مرد کو طبعی طور پر امتیاز حاصل ہے کہ وہ منتظم بنے اور دسرے یہ کہ گھر کے سارے اخراجات بیوی کے نفقہ سمیت مرد کے ذمہ ہیں۔ اس بنا پر گھر کانگران بننے کا حق مردکو ہے عورت کو نہیں یہی حال حکومتی امور کا ہے کہ مسلمان کا امیر یا خلیفہ عورت نہیں ہوسکتی بلکہ ایک حدیث میں آنحضرت (ﷺ) نے اس کی مذمت فرمائی ہے۔( لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَهُمْ امْرَأَةً (کبیر۔ شوکانی) ف 4 اس آیت کی تشریح وہ حدیث کرتی ہے جس میں نبی (ﷺ) کا ارشاد ہے بہترین بیوی وہ ہے جسے اگر تم دیکھو تو تمہیں خوش کرے اگر تم اسے کسی بات کا حکم دو تو وہ تمہاری اطاعت کرے اور جب تم گھر میں نہ ہو تو تمہارے پیچھے وہ تمہارے مال کی اوراپنے نفس کی حفاظت کرے (ابن کثیر ابن جریر بروایت ابو ہر یرہ) ف 5 یعنی اللہ تعالیٰ نے خاوندوں کو عورتوں کے ساتھ حسن معاشرت کا حکم دیکر ان کے حقوق محفوظ کردیئے ہیں اس کے بدلے میں وہ خاوندوں کی غیر حاضری میں ان کے مال اور عزت وآبرو کی حفاظت رکھتی ہیں۔ (کذافی ثنائ) یا یہ کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق ان کے مال و عزت اور حقوق کی حفاظت کرتی ہیں اور خیا نت سے کام نہیں لیتیں (کذافی الشوکانی ) ف 6 یعنی بالآخر اگر باز نہ آئیں تو ان کا چہرہ بجا کر تھوڑا سا مار سکتے ہو۔ ( ثنائ) آنحضرت (ﷺ) نے بعض ناگزیرحالات میں ما رنے کی اجازت دی ہے مگر ساتھ ہی اسے ناپسند بھی فرمایا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کیا کوئی شخص اپنی بیوی کو اس طرح مارتا ہے جس طرح غلام کو ما را جاتا ہے پھر رات کو اس سے ہمبستری کرتا ہے ؟ اور کسی حالت میں ایسی مار پیٹ کی اجازت نہیں ہے جوجسم پر نشان چھوڑے یا جس سے کوئی ہڈی ٹوٹ جائے۔ (ابن کثیر )