فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنكُمْ وَأَقِيمُوا الشَّهَادَةَ لِلَّهِ ۚ ذَٰلِكُمْ يُوعَظُ بِهِ مَن كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا
پھر جب وہ اپنی میعاد کو پہنچنے لگیں تو انھیں اچھے طریقے سے روک لو، یا اچھے طریقے سے ان سے جدا ہوجاؤ اور اپنوں میں سے دو صاحب عدل آدمی گواہ بنا لو اور شہادت اللہ کے لیے قائم کرو۔ یہ وہ (حکم) ہے جس سے اس شخص کو نصیحت کی جاتی ہے جو اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتا ہے اور جو اللہ سے ڈرے گا وہ اس کے لیے نکلنے کا کوئی راستہ بنا دے گا۔
ف 6 مطلب یہ ہے کہ طلاق دو یا رجوع کرو بہرحال ان سے شرافت کا برتائو اور محض تنگ کرنے کی نیت سے رجوع نہ کرو۔ ف 7 مسند عبدالرزاق میں ہے کہ کسی نے حضرت عمران بن حصین سے کہا :” ایک شخص نے طلاق دی پھر رجوع کیا اور گواہ نہیں کیا۔“ فرمایا :” اس نے برا کیا اس نے بدعث کے طریقہ سے طلاق دی اور غیر مضمون طریقہ سے رجوع کیا۔ اسے چاہئے کہ طلاق اور رجوع دونوں پر گواہ کرے اور اللہ سے استغفار کرے۔ بعض کے نزدیک یہ حکم استحباب پر محمول ہے تاکہ تہمت سے بچا جائے اور بعض نے کہا ہے کہ رجوع پر گواہ مقرر کرلینے واجب ہیں اور چھوڑنے پر مستحب امام شافعی اور احمد کا یہی مذہب ہے شوکانی