بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
اللہ کے نام سے جو بے حد رحم والا، نہایت مہربان ہے۔
ف 1 یہ سورۃ بالاتفاق مدینہ منورہ میں نازل ہوئی۔ مفسرین کا بیان ہے کہ اس سورۃ کی ابتدائی آیات ایک صحابی (حاطب بن) ابی بلتعہ کے بارے میں نازل ہوئیں جو اگرچہ سچے اور پکے مسلمان تھے اور بدری صحابہ میں سے تھیلیکن ان سے ایک غلطی سر زد ہوگئی صلححدیبیہ کے بعد مسلمانوں کا کفار مکہ سے معاہدہ قائم تھا اور وہ دو برس قائم رہا لیکن اسی اثناء میں کفار مکہ نے خلاف ورزی شروع کردی۔ بنی ﷺ نے خاموشی کے ساتھ فوج جمع کر کے فتح مکہ کا ارادہ فرمایا اور خبروں پر پابندی لگا دی مبادا کفار مکہ کو اطلاع ہوجائے اور وہ لڑائی کا سامان شروع کردیں۔ حاطب نے ایک عورت کے ذریعہ کفار مکہ کو خط روانہ کیا کہ مسلمانوں کا لشکر تم پر حملہ آور ہونے والا ہے۔ آنحضرت کو بذریعہ وحی اس کی اطلاع ہوگئی اور حضرت علی اور ان کے ساتھ چند آدمی بھیج کر وہ خط راستہ میں پکڑ لیا اور خاطب سے دریافت کیا کہ تم نے یہ حرکت کیوں کی۔ تو اس نے جواب دیا کہ میرے اہل و عیال مکہ میں ہیں اور میں چاہتا تھا کہ کفار مکہ کی کچھ ہمدردی حاصل ہوجائے اور وہ میرے اہل و عیال کی خبرگیری کرتے ہیں۔ ان سے اچھا سلوک کریں۔ حضرت عمر کو یہ سن کر بہت غصہ آیا، مگر آنحضرت نے اس کا قصور معاف فرما دیا کیونکہ وہ بدری صحابہ میں سے تھے۔ یہ واقعہ صحیحین اور دوسری کتابوں میں مذکورہ ہے اور اس کے صحیح ہونے میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہو سکتا۔ (ابن کثیر)