سورة الحشر - آیت 2

هُوَ الَّذِي أَخْرَجَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِن دِيَارِهِمْ لِأَوَّلِ الْحَشْرِ ۚ مَا ظَنَنتُمْ أَن يَخْرُجُوا ۖ وَظَنُّوا أَنَّهُم مَّانِعَتُهُمْ حُصُونُهُم مِّنَ اللَّهِ فَأَتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا ۖ وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ ۚ يُخْرِبُونَ بُيُوتَهُم بِأَيْدِيهِمْ وَأَيْدِي الْمُؤْمِنِينَ فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

وہی ہے جس نے اہل کتاب میں سے ان لوگوں کو جنھوں نے کفر کیا پہلے اکٹھ ہی میں ان کے گھروں سے نکال باہر کیا۔ تم نے گمان نہ کیا تھا کہ وہ نکل جائیں گے اور انھوں نے سمجھ رکھا تھا کہ یقیناً ان کے قلعے انھیں اللہ سے بچانے والے ہیں۔ تو اللہ ان کے پاس آیا جہاں سے انھوں نے گمان نہیں کیا تھا اور اس نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا، وہ اپنے گھروں کو اپنے ہاتھوں اور مومنوں کے ہاتھوں کے ساتھ برباد کر رہے تھے، پس عبرت حاصل کرو اے آنکھوں والو!

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 4 بنو نضیر یہودیوں کا ایک قبیلہ تھا جو مدینہ منورہ کی مشرقی جانب چند میل کے فاصلہ پر آباد تھا۔ یہ لوگ بڑے طاقتور اور سرمایہ دار تھے اور انہیں اپنے مضبوط قلعوں پر بڑا ناز تھا دراصل ان کے آباء و اجداد فتنہ بنی اسرائیل کے زمانہ میں اس نیت سے مدینہ منورہ میں آباد ہوئیتھے کہ جب نبی آخر الزمان کا ظہور ہوگا تو وہ ان پر ایمان لائیں گے۔ مگر آنحضرت کی بعثت کے بعد انہوں نے نہ صرف ایمان لانے سے انکار کردیا بلکہ الٹے آپ کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے۔ جب آنحضرت نے ہجرت کر کے مدینہ تشریف بے گئے تو بظاہر انہوں نے معاہدہ کرلیا مگر در پردہ قریش مکہ کے ساتھ مل کر سازشیں کرتے رہے اور ایک موقع پر انہوں نے اسکیم بنائی کہ آنحضرت پر اوپر سے پتھر اگر آپ کو قتل کردیا جائے۔ ان کی اس قسم کی شرارتوں سے تنگ آ کر بالاخر آنحضرت نے ان پر چڑھائی کی اور وہ اپنے قلعوں میں محصور ہوگئے۔ مسلمانوں نے اللہ کے حکم سے جنگی تدبیر کے طور پر ان کے بہت سے درخت کاٹ ڈالے۔ بالآخر انہوں نیصلح کرلی اور یہ طے پایا کہ مدینہ خالی کردیں اور جتنا مال اٹھا کرلے جاسکتے ہیں لے جائیں۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور اپنے مکانوں کے شتیر تک اکھاڑ کرلے گئے۔ یہ لوگ کچھ خیبر اور باقی شام چلے گئے۔ ان آیات میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ چونکہ یہود کے لئے جلا وطنی کا یہ پہلا موقعہ تھا اس لئے اسے پہلا حشر کہا گیا ہے۔ یا پہلی جلا وطنی مدینہ سے خیبر کی طرف ہوئی اور دوسری مرتبہ حضرت عمر کے زمانہ میں انہیں خیبر سے شام بھیج دیا گیا۔