سورة المجادلة - آیت 8

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ نُهُوا عَنِ النَّجْوَىٰ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَيَتَنَاجَوْنَ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِيَتِ الرَّسُولِ وَإِذَا جَاءُوكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ اللَّهُ وَيَقُولُونَ فِي أَنفُسِهِمْ لَوْلَا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ بِمَا نَقُولُ ۚ حَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ يَصْلَوْنَهَا ۖ فَبِئْسَ الْمَصِيرُ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنھیں سر گوشی کرنے سے منع کیا گیا، پھر وہ اس چیز کی طرف لوٹتے ہیں جس سے انھیں منع کیا گیا اور آپس میں گناہ اور زیادتی اور رسول کی نافرمانی کی سرگوشی کرتے ہیں اور جب تیرے پاس آتے ہیں تو (ان لفظوں کے ساتھ) تجھے سلام کہتے ہیں جن کے ساتھ اللہ نے تجھے سلام نہیں کہا اور اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ اللہ ہمیں اس پر سزا کیوں نہیں دیتا جو ہم کہتے ہیں ؟ انھیں جہنم ہی کافی ہے، وہ اس میں داخل ہوں گے، پس وہ برا ٹھکانا ہے۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 4 مفسرین نے لکھا ہے کہ منافقوں اور یہودیوں کی عادت تھی کہ جب وہ کسی مسلمان کو آتادیکھتے تو علیحدہ ہو کر سرگوشیاں کرنے لگتے، تاکہ گزرنے والا مسلمان یہ سمجھے کہ وہ اس کے یا پیغمبر کے خلاف کوئی سازش کر رہے ہیں اور پھر اس مسلمان کو تنگ کرنے کے لئے ایک دوسرے کو آنکھ بھی مارتے مسلمانوں کو اس سے بڑا رنج ہوتا چنانچہ انہوں نے آنحضرت سے اس کا ذکر کیا۔ آنحضرت نے ان یہودیوں اور منافقوں کو بلا کر علیحدہ سرگوشیاں کرنے سے منع فرمایا۔ لیکن وہ باز نہ آئے اور اپنی عادت پر قائم رہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات فرمائیں۔ (ابن کثیر) ف 5 یہ خاص طور پر یہودیوں کی عاد تھی کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آتیتو معروف طریقہ سے السلام علیک کہنے کی بجائے السام علیک کہتے۔ سام کے معنی موت کے ہیں۔ اس سے ان کی مراد یہ ہوتی کہ آپ کو موت آجائے۔ آنحضرت بھی ان کے جواب میں صرف علیکم یا وعلیکم (یعنی تم پر) فرما دیتے اور بعض اوقات یہود ان حرکات کا اعتراف بھی کرلیتے۔ اس لئے آنحضرت نے مسلمانوں سے فرمایا :” جب اہل کتاب میں سے کوئی شخص تمہیں سلام کریتو اس کے جواب میں ” علیک“ کہا کرو ایک مرتبہ چند یہودی آنحضرت کی خدمت میں آئے اور انہوں نے حسب عادت السام علیک یا ابالقاسم“ کہہ کر سلام کیا حضرت عائشہ فرماتی ہیں۔ میں نے ان کے جواب میں ” علیکم السام و العنۃ“ کہا یعنی تم پر موت اور لعنتہو۔ اس پر آنحضرت نے فرمایا : ” عائشہ ! اللہ تعالیٰ فحش گوئی کو پسند نہیں کرتا … اگر وہ ایسا کہیں تو تم ان کے جواب میں صرف ” وعلیکم“ کہہ دیا کرو۔ (شوکانی) ف 6 یعنی جلد کیوں کرتیہو ایسی سزا ملے گی کہ اس کے ہوتے کسی دوسری سزا کی ضرورت نہ رہے گی۔ اب رہی پیغمبر کی صداقت تو اس کے لئے یہی دلیل کافی ہے کہ اسے تمہارے دل کی بات کا پتا چل گیا اور ایسا اللہ تعالیٰ کے بتلائے ہی سے ہوسکتا تھا۔