ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَىٰ آثَارِهِم بِرُسُلِنَا وَقَفَّيْنَا بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَآتَيْنَاهُ الْإِنجِيلَ وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ رَأْفَةً وَرَحْمَةً وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا ۖ فَآتَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا مِنْهُمْ أَجْرَهُمْ ۖ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ
پھر ہم نے ان کے نقش قدم پر پے درپے اپنے رسول بھیجے اور ان کے پیچھے عیسیٰ ابن مریم کو بھیجا اور اسے انجیل دی اور ہم نے ان لوگوں کے دلوں میں جنھوں نے اس کی پیروی کی نرمی اور مہربانی رکھ دی اور دنیا سے کنارہ کشی تو انھوں نے خود ہی ایجاد کرلی، ہم نے اسے ان پر نہیں لکھا تھا مگر اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے (انھوں نے یہ کام کیا) پھر انھوں نے اس کا خیال نہ رکھا جیسے اس کا خیال رکھنے کا حق تھا، تو ہم نے ان لوگوں کو جو ان میں سے ایمان لائے ان کا اجر دے دیا اور ان میں سے بہت سے نافرمان ہیں۔
ف 5 یعنی وہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بڑے نرم اور مہربان تھے ۔دوسری آیت میں یہی تعریف صحابہ کرام (رض)کی فرمائی گی ہے۔ دیکھیے (سورۃ الفتح آیت 29) ف 6 یعنی دنیا کو چھوڑ دینا، شادی نہ کرنا اور خلقت سے الگ ہو کر جنگلوں اور غاروں میں رہنا بسنا۔ ف 7 یعنی انہوں نے دو جرم کئے ایک رہبانیت( درویشی) کو دین کا جزو لاینفک قرار دے لیا اور پھر اس درویشی کے حقوق و آداب کی بھی نگہداشت نہ کرسکے۔ چنانچہ انہوں نے ابتداء میں توحید اور درویشی کو ایک ساتھ نبھانے کی کوشش کی لیکن حضرت مسیح کے تیسری صدی بعد سے اپنے بادشاہوں کے بہکانے میں آگئے۔ اور تثلیث کے چکر میں پھنس کر توحید کو چھوڑ دیا۔ پھر درویشی تو درکنار اصل ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ درویشی کو جاہ ریاست طلبی کا ذریعہ بنالیا اور باطل طریقوں سے لوگوں کے مال کھانے لگے۔ الغرض جہاد کے فریضہ کو چھوڑ کر تصرف کی رسوم اختیار کرنا ہی رہبانیت ہے جس کی قرآن نے مذمت کی ہے اور پھر درویشی یا دینی پیشوائی کو جاہ و ریاست اور دنیا طلبی کا زریعہ بناناتو ناقابل عفوگناہ ہے جو یہودونصاریٰ میں عا م و باکی شکل اختیار کر گیا تھا۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں یہ فقیری اور تارک دنیا بننا نصاریٰ نے رسم نکالی، جنگل میں تکیہ لگا کر بیٹھتے نہ جورو رکھتے نہ بیٹا ،نہ کماتے نہ جوڑتے محض عبادت میں رہتے ۔ خلق سے نہ ملتے۔ اللہ نے بندوں پر یہ حکم نہیں رکھا مگر جب اپنے اوپر نام رکھا ترک دنیا کا، پھر اس پردے میں دنیا چاہنی بڑا وبال ہے۔ (موضح) ف 8 حضرت عبداللہ بن مسعود (رض)سے روایت ہے کہ آنحضرت(ﷺ) نے فرماا : ایماندار رہنے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو مجھ پر ایمان لائے اور بے ایمانی سے مراد وہ ہیں جنہوں نے مجھ سے کفر کیا۔(شوکانی)