سورة النسآء - آیت 19

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا ۖ وَلَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ۚ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِن كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تمھارے لیے حلال نہیں کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ اور نہ انھیں اس لیے روک رکھو کہ تم نے انھیں جو کچھ دیا ہے اس میں سے کچھ لے لو، مگر اس صورت میں کہ وہ کھلم کھلا بے حیائی کا ارتکاب کریں اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے رہو، پھر اگر تم انھیں ناپسند کرو تو ہوسکتا ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت بھلائی رکھ دے۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 4 یعنی جو لوگ تادم مرگ شرک میں مبتلا رہتے ہیں اور موت کے آثار دیکھ کر تو بہ کرنا چاہتے ہیں انکی توبہ بھی قبول نہیں ہوتی حضرت ابو ذر (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول فرماتے ہیں کہ جب تک حجاب نہ گرے صحابہ (رض) نے دریافت کیا کہ حجاب گرنے سے کیا مراد ہے فرمایا یہ کہ جان نکلنے اور وہ مشرک ہو (ابن کثیر) بعض نے لکھا ہے کا فرمرنے کے بعد جب عذاب کا مشاہدہ کریں گے تو اس وقت تو بہ کریں گے مگر وہ تو بہ قبول نہ ہوگی۔ (قرطبی) ف 5 زنا وغیرہ کے سلسلہ میں ضمنا توبہ کے احکام بیان فرمانے کے بعد اب یہاں سے پھر عورتوں کے حقوق کا بیان ہو رہا ہے اور اسے مقصد عورتوں کو اس ظلم وزیادتی سے نجات دینا ہے جو جاہلیت میں ان پر روا رکھی جاتی تھیں۔ (کبیر قرطبی اس کے مخاطب تو شوہر کے اولیا میں جیسا کہ امام بخاری (رح) اور بعض دوسرے محدثینن نے اس آیت کی شان نزول میں حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں میت کو اولیا دوسری چیزوں کی طرح اس کی بیوی کے بھی مالک ہوتے۔ ان میں سے اگر کوئی چاہتا تو اس سے خود شادی کرلیتا یا کسی دوسرے سے اس کی شادی کردیتے اور مہر خود لے لیتے اور اگر چاہتے تو عورت کو کلیتا شادی سے ہی روک دیتے حتی کہ وہ مر جاتی اور اس کے مال کے وارث بن جاتے عورت کے اولیا کو اس سلسلہ میں کچھ اختیار نہ ہوتا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور عورت پر انکے تسلظ کو ختم کردیا۔ (ابن کثیر، قرطبی) اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے مخاطب شوہر ہوں چنانچہ بعض علما نے اس کی شان نزول میں لکھا ہے کہ وہ عورتوں کو طلاق نہ دیتے اور تنگ کرتے رہتے تاکہ اگر مر جائیں تو ان کے وارث بن جائیں اور اگر طلاق لینا چاہے تو مہر میں سے کچھ مال بطور واپس کرے اس پر یہ آیت نازل ہوئی پہلی صورت میں اس کا حاصل یہ ہے کہ خاوند کے مرنے کے بعد اسے نکاح سے روکنا جائز نہیں ہے بلکہ وہ جہاں چاہے نکاح کرسکتی ہے اور اولیا اس طرح زبر دستی سے اس کے وارث نہیں بن سکتے اور دوسری صورت میں یعنی جب کہ شوہر مخاطب ہوں تو خلاصہ یہ ہوگا کہ شوہر کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ عورت سے مہر واپس لینے کی غرض سے اسے تنگ کرتا رہے اور طلاق نہ دے یہ دوسری صورت زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے اور ابن عطیہ وغیرہ نے اسی کو پسند کیا ہے اس لیے کہ آیت کے بقیہ حصے کا تعلق قطعا شوہروں کیساتھ ہے کیونکہ فاحشہ کے ارتکاب کیصورت میں خاوند ہی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اسے روک رکھے تاکہ اس سے مہرو وغیرہ جو کچھ دیا ہے واپس لیکر طلاق دے۔ شوہر کے اولیا کو یہ اختیار نہیں ہے (فتح القدیر۔ قرطبی) اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خطاب عام مسلمانوں سے ہو جس میں شوہر والیاں میت اور دوسرے مسلمان سبھی آجاتے ہیں۔ فتح القدیر۔ کبیر) ف 6 بعض صحابہ (رض) اوتابعین نے کہا ہے کہ یہاں فاحشہ مبینہ سے مراد زنا ہے مگر صحیح یہ ہے کہ اسے عام رکھا جائے یہ اور فحش کلامی بد خلقی ایذار سانی زنا اور اس قسم کے جملہ ذائل کو شامل ہو اور مطلب یہ ہوگا کہ اگر زیادتی عورت کی طرف سے ہو تو تم ان کو خلع لینے پر مجبور کرسکتے ہوتا کہ وہ لیا ہو امال واپس کردیں۔ اس پر یہ استثنا اخذ اموال سے ہوگا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عضل مذکور سے استثنا ہو یعنی تمہا رے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ ان کو روک رکھو الا یہ کہ وہ فاحشہ کا ارتکاب کریں تو اس صورت میں ان کو روک سکتے ہو۔ (کبیر۔ قرطبی) ف 7 یہ عورتوں سے متعلق تیسرا حکم ہے کہ بہتر طریقے سے ان کے ساتھ بسر کرو۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا خیر کم خیر کم لا ھلہ وانا خیر کم الا ھلی یعنی تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنے گھر ووالوں کے لے بہتر ہے اور میں اپنے گھر والوں سب سے بہتر ہوں۔ (ابن کثیر۔ ف 8 یہ بھی حسن معاشرہ کا تتمہ ہے یعنی اگر کسی اخلاقی کمزوری یا بد صورت ہونے کی وجہ سے تمہیں ان سے نفرت ہوجائے اور ان کو طلاق دینا چاہو تو بھی فو را طلاق نہ دو بلکہ بہتر طریق سے ان کو اپنے پاس رکھو ہو سکتا ہے کہ ان کی صحبت سے خیر کثیر یعنی اولاد حاصل ہوجائے اور تمہاری نفرت محبت میں تبدیل ہوجائے ایک حدیث میں ہے کہ کوئی مومن مرد کسی مومن عورت کو بنظر کراہت نہ دیکھے اگر اسے اس کی ایک عادت باپسند ہے تو دوسری عادت اچھی بھی ہوگی۔ (ابن کثیر) اس کے دوسرے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ اگر نفرت کے سبب تم ان سے مفارقت اختیار کرنا چاہو تو ہوسکتا ہے کہ اس مفارقت میں ان کے لیے خیر کثیر مضمر ہو مثلا ان کو بہتر خاوند مل جائے (کبیر)