بَلْ ظَنَنتُمْ أَن لَّن يَنقَلِبَ الرَّسُولُ وَالْمُؤْمِنُونَ إِلَىٰ أَهْلِيهِمْ أَبَدًا وَزُيِّنَ ذَٰلِكَ فِي قُلُوبِكُمْ وَظَنَنتُمْ ظَنَّ السَّوْءِ وَكُنتُمْ قَوْمًا بُورًا
بلکہ تم نے گمان کیا کہ رسول اور ایمان والے کبھی اپنے گھر والوں کی طرف واپس نہیں آئیں گے اور یہ بات تمھارے دلوں میں خوشنما بنا دی گئی اور تم نے گمان کیا، برا گمان اور تم ہلاک ہونے والے لوگ تھے۔
ف 3 یعنی سب کے سب قریش کے ہاتھوں مارے جائیں گے اور ایک یخص بھی زندہ بچ کر نہ آئے گا ف 4 یعنی شیطان نے تمہارے دلوں میں یہ خیال خوشنما بنا کر ڈال دیا تھا اور تم نے اسے قبول کرلیا۔ ف 5 یعنی یہ گمان کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کی ہرگز مدد ہیں کرے گا۔ ف 6 یعنی اپنی دنیا اور آخرت دونوں تباہ کرلیں۔ یہ ’ دبائر“‘ کی جمع ہے اور ” بائر“ اس غلط کا کار آدمی کو کہتے ہیں جس میں کسی قسم کی خیر نہ ہو۔ اس لئے یہ لفظ نہایت شریر اور فسادی آدمی پر بھی بولا جاتا ہے۔