سورة آل عمران - آیت 167

وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ نَافَقُوا ۚ وَقِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوِ ادْفَعُوا ۖ قَالُوا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّاتَّبَعْنَاكُمْ ۗ هُمْ لِلْكُفْرِ يَوْمَئِذٍ أَقْرَبُ مِنْهُمْ لِلْإِيمَانِ ۚ يَقُولُونَ بِأَفْوَاهِهِم مَّا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ ۗ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يَكْتُمُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور تاکہ وہ ان لوگوں کو جان لے جنھوں نے منافقت کی اور جن سے کہا گیا آؤ اللہ کے راستے میں لڑو، یا مدافعت کرو تو انھوں نے کہا اگر ہم کوئی لڑائی معلوم کرتے تو ضرور تمھارے ساتھ چلتے۔ وہ اس دن اپنے ایمان (کے قریب ہونے) کی بہ نسبت کفر کے زیادہ قریب تھے، اپنے مونہوں سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں اور اللہ زیادہ جاننے والا ہے جو وہ چھپاتے ہیں۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 3 یعنی جنگ احد میں تمہیں جس نقصان کا سامنا کرنا پڑا وہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی مشیئت سے تھا اور اس میں حکمت یہ تھی کہ اہل ایمان اور اہل نفاق کے درمیان تمیز ہوجائے۔ ف 4 آنحضرت ﷺ جنگ احد میں ایک ہزار کی جمیعت لے کر احد کی طرف چلے۔ مقام شوط پر پہنچے تو عبد اللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں سمیت وہاں سے سے لوٹ آیا۔ عبد الہ بن عمر و بن حرا انصاری (رض)۔ اخو نبی سلمہ۔ حضرت جابر (رض) کے والد ان کے پیچھے گئے اور ان سے کہا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد نہیں کرسکتے تو کم از کم مسلمانوں کے ساتھ تو رہو تاکہ کثرت تعداد کا دشمنوں پر اثر پڑے اور وہ آگے بڑھنے کی جرات نہ کرے۔ اکثر مفسرین نے اوادفعوا کے یہی معنی بیان کئے ہیں مگر بعض نے ادفعوا کے یہ معنی بھی کئے کہ حمیت قومی اور حفاظت وطن کی خاطر ہی لڑائی میں شامل رہو، الغرٖ ض حضرت عبد اللہ (رض) بن عمر و نے ان کو ہر طریقے سے واپس لانے کی کو شش کی مگر وہ تیار نہ ہوئے اور وہ جواب آگے ْآرہا ہے۔ (قرطبی۔ ابن کثیر) ف 5 وہ کہنے لگے کہ کوئی لڑائی وڑائی نہیں ہوگی اگر واقعی لڑائی کی توقع ہوتی تو ہم ضرور تمہارا ساتھ دیتے یا مطلب یہ ہے کہ کوئی ڈھب کی جنگ ہوتی اور فریقین میں کچھ تبا سب ہوتا تو ہم ضرور شرکت کرتے مگر ادھر تین ہزار کا مسلح لشکر ہے اور او ادھر ایک ہزار بے سر وسامان آدمی ہیں یہ کوئی جنگ ہے یہ تو اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے اس پر ہم ساتھ نہیں دے سکتے (ابن کثیر۔ رازی) حضرت شاہ صا حب لکھتے ہیں کہ یہ کلمہ انہوں نے طعن کو طور پرکہا تھا اور مطلب یہ تھا کہ مسلمان فنون حرب سے با لکک نا آشنا ہیں ورنہ ہماری رائے مان لی جاتی تو مدینہ کے اندر رہ کر مدافعت کی جاتی۔ (موضح) ف 6 یعنی اس سے قبل تو وہ بظاہر مسلمانوں کے ساتھ شامل تھے گو ان کے باطن میں کفر تھا مگر علانیہ اس کا اظہار نہیں کرتے تھے لیکن اس روز انہوں نے علا نیہ ایمان چھوڑ کر کفر اختیار کرلیا۔ یا مطلب یہ ہے کہ اس دن انہیں ایمان کی نسبت سے کفر کا مفاد زیادہ عزیز تھا اور انہوں نے واپس ہو کر مسلمانوں کو کمزور کیا اور کفر کو تقویت بخشی۔ (رازی۔ قرطبی) حضرت شاہ صاحب (رح) لکتھے ہیں یہ کلمہ انہوں نے طعن کر طور پر کہا تھا۔ پس اس لفظ کی و جہ سے کفرکے قریب ہوگئے اور ایمان سے دور۔ (موضح) ف 7 یعنی بظاہر یہ کلمہ کہ کر عذر لنگ اور بہانہ بناتے ہیں مگر جو جذبات ان کے دلوں میں مستور ہیں ان کا صاف طور پر اظہار نہیں کرتے در اصل یہ مسلمانوں کی ہلاکت کے متمنی ہیں۔ لیکن انہیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ان کے دل کی باتوں سے خوب واقف ہے۔