قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا ۖ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
ہم نے کہا سب کے سب اس سے اتر جاؤ، پھر اگر کبھی تمھارے پاس میری طرف سے واقعی کوئی ہدایت آجائے تو جو میری ہدایت کی پیروی کرے گا سو ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
ف 8۔ تو نہ کی قبولیت کے بعد اس جملہ کا اعاد اس غرض سے ہے کہ اب تم زمین پر ہی رہو اب تمہیں نبوت سے سرفراز کیا جاتا ہے اصل میں اس کا تعلق پہلے اھبطوا کے ساتھ ہے دوبارہ ھبطوا کا جملہ لاکر اس ربط کی طرف اشارہ کردیا ہے۔ ف 9۔ مخاطب تو آدم (علیہ السلام) اور ان کی زوجہ ہیں مگر مراد انکی ذریت سے یعنی تمہارے پاس میری طرف سے انبیاء ورسل وحی کی ہدایت لے کر آتے رہیں گے۔ (ابن کثیر) ہدایت کا یہ سلسلہ آدم (علیہ السلام) سے شروع ہو کر محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ختم ہوگیا۔ انحضرت اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور قرآن مجید آخری کتاب ہدایت ہے۔ تاریخ بخاری اور مستدرک حاکم میں ہے کہ انبیاء کی کل تعداد ایک لا کگ چو بیس ہزار ہے جن میں سے تین سو پندرہ نبی مرسل ہیں۔ (قرطبی) آج ہمارے پاس ہدایت الہی کے دو نوشتے ہیں یعنی کتاب وسنت۔ ان کے ساتھ منسلک سے ہی ہم ضلا لت سے بچ سکتے ہیں۔ ف 10۔ حزن وہ افسوس جو مافات اور خوف آئندہ متوقع خطرے سے مقصدیہ ہے کہ متعین ہدایت آخرت میں تو دنیا کی زندگی پر افسوس کریں گے جیسا کہ کہ کفار کو افسوس ہوگا ( الانعام :27) اور قیامت کے احوال وشدا انہیں کو اندیشہ نہ ہوگا (النل :79 الا نبیاء :3)