وَمَن لَّا يُجِبْ دَاعِيَ اللَّهِ فَلَيْسَ بِمُعْجِزٍ فِي الْأَرْضِ وَلَيْسَ لَهُ مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءُ ۚ أُولَٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
اور جو اللہ کی طرف بلانے والے کی دعوت قبول نہ کرے گا تو نہ وہ زمین میں کسی طرح عاجز کرنے والا ہے اور نہ ہی اس کے سوا اس کے کوئی مددگار ہوں گے، یہ لوگ کھلی گمراہی میں ہیں۔
ف 9 یعنی اس سے بھاگ کر کہیں نہیں جاسکتا۔ ف 10 جنوں کے متعلق جس واقعہ کا ان آیات میں ذکر کیا گیا ہے۔ صحیحین وغیرہ کی متعدد روایات سے معلمو ہوتا ہے کہ وہ بطن نخلہ میں پیش آیا جو مکہ معظمہ اور طائف کے درمیان ایک وادی ہے۔ اس واقعہ کی تفصیل میں حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ آنحپرت کی بعث سے پہلے جنوں کو آسمان کی کچھ خبریں مل جایا کرتی تھیں مگر آنحضرت کی بعثت کے بعد یہ سلسلہ بند کردیا گیا اور جن خبریں حاصل کرنے کے لئے اوپر جاتے تو ان کو کثرت سے شہب کی مار پڑتی۔ اس پر انہیں خیال ہوا کہ زمین میں ضرور کوئی نیا واقعہ ہوا ہے جس کی وجہ سے آسمان پر سخت پہرے بٹھا دیئے گئے ہیں۔ اس جستجو میں جنوں کے مختلف گروہ مشرق و مغرب میں پھیل گئے۔ ادھر نبی ﷺ اپنے چند صحابہ کے ساتھ سوق عکاظ جاتے ہوئے بطن نخلہ میں ٹھہرے ہوئے تھے وہاں آپ اپنے صحابہ کے ساتھ فجر کی نماز پڑھ رہے تھے کہ جنوں کی ایک جماعت وہاں آ پہنچی اس کے بعد وہ واقعہ پیش آیا جس کا ان آیات میں ت ذکرہ ہے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بعثت سے کچھ بغد کا واقعہ ہے۔ بعض اصحاب سیرت نے اسے ہجرت سے کچھ پہلے کا واقعہ قرار دیا ہے جب آنحضرت طائف سے زخمی ہو کر بطن نخلہ میں قیام فرما تھے۔ علمائے تفسیر نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ حج کے دنوں کا واقعہ ہے جبکہ آنحضرت مکہ سے باہر صحابہ کے ساتھ صبح کین ماز ادا کر رہے تھے۔ جنوں کی پہلی آمد کے موقع پر آنحضرت نے نہ ان کو دیکھا اور نہ ان کی آمد کا آنحضرت کو پتا چلا حتی کہ سورۃ جن کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں اور وحی کے ذریعہ آپ کو مفصل حال معلوم ہوا۔ اس اواقعہ کے بعد بہت بڑی تعداد میں جن آنحضرت سے ملاقات کر کے ہدایت یاب ہوئے اور آپ نے ان کو احکام بھی سنائے ایک ملاقات کے موقعہ پر حضرت عبداللہ بن مسعود بھی آنحضرت کے ساتھ گئے تھے۔ (ابن کثیر) قرآن و حدیث سے جنوں کا وجودثابت ہے سلف صالح اور خلف جنوں کے وجود کو بالا جماع مانتے ہیں اس کے باوجود جو شخص ان کے وجود کا منجکر ہے اس کے کفر میں شبہ نہیں ہے۔ (سلفیہ)