قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِن كَانَ مِنْ عِندِ اللَّهِ وَكَفَرْتُم بِهِ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَىٰ مِثْلِهِ فَآمَنَ وَاسْتَكْبَرْتُمْ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
کہہ دے کیا تم نے دیکھا اگر یہ اللہ کی طرف سے ہوا اور تم نے اس کا انکار کردیا اور بنی اسرائیل میں سے ایک شہادت دینے والے نے اس جیسے (قرآن) کی شہادت دی، پھر وہ ایمان لے آیا اور تم نے تکبر کیا ( تو تمھارا انجام کیا ہوگا) بے شک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
ف 7 یہاں ’’بنی اسرائیل میں سے ایک گواہ“ سے مراد علمائے یہود ہیں جن سے مشرکین عرب آنحضرتﷺ کے بارے میں دریافت کرتے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ جب وہی بنی اسرائیل (اہل کتاب) آنحضرتﷺ کی تصدیق کرچکے ہیں تو تم کیوں ایمان نہیں لاتے۔ واضح رہے کہ علمائے یہود صراحت کے ساتھ اس بات کا اقرار کرچکے تھے کہ بیشک تو رات میں عرب (بنو اسماعیل) میں سے نبی آخر الزمان ﷺ اور کتاب آنے کی خبر دی گئی ہے اور یہ رسول وہی معلوم ہوتا ہے۔ علمائے یہود کی یہ شہادتیں ان پیشنگوئیوں پر مبنی تھیں جو بائبل میں موجود چلی آرہی تھیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کا سب سے بڑا گواہ (یعنی حضرت موسیٰ) خود ہی گواہی دے چکا ہے کہ بنی اسرائیل کے بنو عم (بنو اسماعیل) میں سے اسی کی مثل ایک رسول آنے والا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ بعض حق پرست علمائے یہود عبداللہ بن سلام وغیرہ آنحضرت کو دیکھتے ہی آپ پر ایمان لے آئے۔ پس شَاهِدٌ سے مراد حضرت موسیٰ اور ” مِثْلِهِ “ سے مراد توراۃ ہے بعض نے شاہد بنی اسرائیل سے مراد عبداللہ بن سلام لیا ہے اور اس آیت کو مدنی تسلیم کیا ہے۔ مگر عبداللہ بن سلام کے بارے میں اس آیت کے نازل ہونے کے یہ معنی ہیں کہ ان پر یہ آیت چسپاں ہو سکتی ہے اور وہ بھی اس کے مصداق ہیں۔ (ابن کثیر۔ قرطبی)