قُلْ مَا كُنتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ وَمَا أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُّبِينٌ
کہہ دے میں رسولوں میں سے کوئی انوکھا نہیں ہوں اور نہ میں یہ جانتا ہوں کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور نہ (یہ کہ) تمھارے ساتھ (کیا)، میں تو بس اسی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کیا جاتا ہے اور میں تو بس واضح ڈرانے والا ہوں۔
ف 3 بلکہ مجھ سے پہلے ہزاروں پیغمبر (علیهم السلام) دنیا میں آچکے ہیں اور ان کی دعوت وہی رہی ہے جو میری ہے۔ “ ف 4 آیا مکہ میں رہوں گا یا اس سے نکال دیا جائونگا اور کیا طبعی طریق پر وفات پائوں گا یا دشمنوں کے ہاتھوں شہید کردیا جاونگا۔ ف 5 کیا تم پر عذاب ابھی آئیگا یا تمہیں مزید مہلت دی جائیگی؟“ یہ سب غیب کی باتیں ہیں جن کے متعلق آنحضرت ﷺکو بے خبر ہونے کا اعلان کردینے کا حکم دیا گیا۔ رہی آخرت ! تو آنحضرتﷺ کو معلوم تھا کہ اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور آپ کے متبعین کو جنت اور تکذیب کرنے والوں کو دوزخ نصیب ہوگی۔ ابن جریر وغیرہ نے آیت کے اسی مفہوم کو اختیار کیا ہے اور یہی صحیح ہے۔ مگر بعض نے آیت کے مفہوم کو عام رکھا ہے کہ آنحضرتﷺ کو آخرت کے بارے میں بھی معلوم نہ تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کیا معاملہ درپیش آنیوالا ہے۔ اس کی تائید صحیح بخاری کی اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں حضرت اُم العلُا (رض) بیان کرتی ہیں کہ عثمان بن مظعون کی وفات پر میں نے کہا۔” ابا السائب ! میں تمہارے متعلق شہادت دیتی ہوں کہ تم اللہ کے ہاں عزت دار ہو۔“ اس پر آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ تمہیں یہ کیسے معلوم ہوگیا۔ میں اللہ کا پیغمبر ہوں لیکن مجھے معلوم نہیں کہ میر اور تمہارا حال کیا ہونیوالا ہے علما نے لکھا ہے کہ اس مفہوم کے اعتبار سے یہ آیت İإِنَّا فَتَحْنَا لَكَĬ سے منسوخ ہوچکی ہے۔ مگر قرطبی لکھتے ہیں کہ صحیح بخاری میں دوسری روایت(مَا يُفْعَلُ بِهِ) ہے کہ مجھے معلوم نہیں ہے کہ اس (عثمان) کے ساتھ کیا ہونیوالا ہے۔ وھو الصحیح ان شاء اللہ تعالیٰ۔لهذا نسخ کی ضرورت نہیں یا یہ کہ حسن کی تفسیر کو اختیار کیا جائے کہ دنیا میں جو عوارض پیش آنیوالے ہیں ان کا مجھے تفصیلی علم نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی خاص آدمی کے لئے قطعی ہونے کا حکم لگانا صحیح نہیں ہے بجز ان لوگوں کے جن کے جنتی ہونے کی شارع نے تصریح کی ہے جیسے عشرہ مبشرہ (قرطبی، ابن کثیر) ف 6 چاہے وہ حکم قرآن میں آیا ہو یا حدیث میں اس کی خبر دی گئی ہو۔ کیونکہ وحی کا اطلاق کتاب اور سنت دونوں پر ہوتا ہے۔