فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ۖ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ
پس اللہ کی طرف سے بڑی رحمت ہی کی وجہ سے تو ان کے لیے نرم ہوگیا ہے اور اگر تو بد خلق، سخت دل ہوتا تو یقیناً وہ تیرے گرد سے منتشر ہوجاتے، سو ان سے در گزر کر اور ان کے لیے بخشش کی دعا کر اور کام میں ان سے مشورہ کر، پھر جب تو پختہ ارادہ کرلے تو اللہ پر بھروسا کر، بے شک اللہ بھروسا کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
ف 10 احد کے دن مسلما نوں نے خوفناک غلطی کی اور میدان چھوڑ کر فرار اختیار کیا۔ پھر جب آنحضرت ﷺ کی دعوت سے دوبارہ ج جمع ہوگئے تو آپ ﷺ نے ان کو کسی قسم کی سرزنش نہیں کی بلکہ حسن سے پیش آئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ کا یہ حسن خلق اللہ تعالیٰ ج کے خاص فضل واحسان اور رحمت کا نتیجہ ہے ورنہ مسلمانوں کی شیراز ہ بندی ناممکن تھی۔ (قرطبی۔ رازی ) ف 1 حضرت شاصاحب (رح) فرماتے ہیں : شاید حضرت ﷺ کا دل مسلما نوں سے خفا ہوگا اور چاہا ہوگا کہ اب سے ان سے مشورہ نہ پو چھئے۔ سو حق تعالیٰ نے سفارش کی کہ اول مشو رہ لینا بہتر ہے جیسے ایک بات ٹھہر چکے پھر پس وپیش نہ کرے۔ ( اس آیت میں آنحضر ﷺ کو حکم دیا رہا ہے کہ جب کبھی جنگ یا انتظامی قسم کا کوئی ایسا معاملہ درپیش ہو جس میں ہما ری طرف سے بذریعہ وحی کوئی متعین کم نہ دیا جائے تو اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرلیا کرو تاکہ ان کی دل جوئی ہو اور انہیں بعد میں باہمی مشورہ سے مل کر کام کرنے کی تربیت بھی حاصل ہو۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے اکثر اہم امور میں صحابہ کرام (رض) سے مشورے فرمائے اور اب پر عمل بھی ہوا۔ (دیکھئے ابن کثیر ج 1 ص 420) آپ ﷺ کے بعد خلفا راشدین سے بھی اس سنت پر پوری طرح کار بند رہے۔ پھر اگر مشورہ کے بعد کسی چیز کا فیصلہ کرلیا جائے تو اسے پوری دلجمعی سے کر گزر نے اور نتیجہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دینے کا نام توکل ہے۔ چنانچہ مذکور ہے کہ جنگ احد کے موقع پر کھلے میدان میں لڑائی کرنے کے فیصلے کے بعد جب آپ ﷺ مسلح ہر کر تشریف لے آئے اور صحابہ (رض) نے اپنی غلطی کا احساس کرتے ہوئے آپ ﷺ کی رائے کے مطابق شہر میں رہ کر مقابلہ ج کرنے پر رضامندی ظاہر کی تو آپ ﷺ ن نے فرمایا۔ لاینبغی لنبی اذا لبس سلا حہ ان یضعھا حتیٰ یقاتل۔ (قر طبی) یہ آیت اور آیت وامر ھم سوری ٰ بینھم (الشوریٰ آیت) اسلامی طرز حکومت کے کے لیے اساسی حیثیت کی حامل ہیں مگر شارع ( علیہ السلام) اور خلفا راشدین نے اس شورائی نظام کی کوئی ہیئت متعین نہیں کی اور اسے ہر دور کے تقا ضوں پر چھوڑ دیا ہے۔ احادیث میں مشورہ سے کام کرنے کی ترغیب آئی ہے۔ چنانچہ فرمایا ما ندم من استشار ولا خاب من استغار کہ مشورہ ہے بعد انسان کی مذامت نہیں اٹھانی پڑتی۔ ابن عطیہ فرماتے ہیں۔ شوریٰ قواعد شریعت اور احکام عزیمت میں داخل ہے جوا میر علمائے دین سے مشورہ نہ لیتا ہو اسے معزول کرنا واجب ہے ولا خلاف فیہ امام بخاری (رح) فرماتے ہیں آنحضرت ﷺ کے بعد خلفا (رض) برابر دیانت داراہل علم سے مشورہ لیتے رہے۔ (قرطبی )