قُل لِّلَّذِينَ آمَنُوا يَغْفِرُوا لِلَّذِينَ لَا يَرْجُونَ أَيَّامَ اللَّهِ لِيَجْزِيَ قَوْمًا بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ
ان لوگوں سے جو ایمان لائے کہہ دے کہ وہ ان لوگوں کو معاف کردیں جو اللہ کے دنوں کی امید نہیں رکھتے، تاکہ وہ کچھ لوگوں کو اس کا بدلہ دے جو وہ کماتے رہے تھے۔
ف 7 ” اللہ تعالیٰ کے دنوں‘ سے مراد وہ دن ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے دنوں“ سے مراد وہ دن ہیں جن میں اللہ تعالیٰ اپنے دشمنوں کو خاص سزا دیتا ہے یا اپنے فرمانبردار بندوں کو خاص انعام و اکرام سے نوازتا ہے۔ لہٰذا جو لوگ اللہ تعالیٰ کے دنوں کی امیدن ہیں رکھتے اس سے مراد کفار ہیں جو اس کی رحمت سے مایوس اور اس کی گرفت سے بے فکر ہیں۔ ف 8 یعنی ان کی زیادتیوں اور ایذا رسانیوں پر صبر و تحمل سے کام لیں اور ان کا معاوضہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیں … واضح رہے کہ مسلمانوں کو یہ حکم مکہ معظمہ میں دیا گیا جب انہیں کفار کے مقابل ہمیں تلوار اٹھانے کی اجازت نہ تھی۔ بعد میں مدینہ پہنچ کر جب جہاد بالسیف کا حکم نازل ہوا تو یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ (ابن کثیر) ف 9 ” قوما‘(ان لوگوں کو) کا لفظ عام استعمال ہوا ہے۔ اس سے مراد مسلمان بھی ہو سکتے ہیں اور کافر بھی۔ مسلمان مراد ہوں تو مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ انہیں صبر و تحمل پر مناسب اجر عطا فرمائے گا اور اگر کافر مراد ہوں تو مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ان کی شرارتوں پر خود ہی کافی سزا دے گا۔