سورة آل عمران - آیت 156

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ إِذَا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ أَوْ كَانُوا غُزًّى لَّوْ كَانُوا عِندَنَا مَا مَاتُوا وَمَا قُتِلُوا لِيَجْعَلَ اللَّهُ ذَٰلِكَ حَسْرَةً فِي قُلُوبِهِمْ ۗ وَاللَّهُ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنھوں نے کفر کیا اور اپنے بھائیوں کے بارے میں کہا جب انھوں نے زمین میں سفر کیا، یا وہ لڑنے والے تھے، اگر وہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ مرتے اور نہ قتل کیے جاتے، تاکہ اللہ اسے ان کے دلوں میں حسرت بنا دے اور اللہ زندگی بخشتا اور موت دیتا ہے اور اللہ اس کو جو تم کرتے ہو، خوب دیکھنے والا ہے۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 4 مراد منافقین ہیں جو ظاہر میں مسلمان اور درحقیقت کافر ہیں۔ ( وحیدی) ان کی طرح مت بنو یعنی ان جیسے خیا لات دل میں نہ لا و اور ان کی طرح یہ عقیدہ مت رکھو۔ مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے بئر معونہ کی طرح ایک دستہ بھیجا وہ شہید ہوگیا تو اس پر منافقین نے اس قسم کے خیالات کا اظہار کیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں کو اس قسم کے خیالات دم لانے سے منع فرمادیا۔ ( قرطبی۔ ابن کثیر) اسی قسم کے خیالات کا اظہار شہدا احد کے متعلق بھی کیا گیا۔ (دیکھئے آیت 168) ف 5 اپنے مسلمان بھائی بندوں کے حق میں یعنی لام سببیت ہے اور ان کو اپنا بھائی کہنا نسبی رشتہ داری کی بنا پر ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اخوان سے ان کے دوسرے ہم مسلک منا فق بھائی مراد ہوں۔ اس صورت میں امام تبلیغ کا ہوگا یعنی انہوں نے اپنے منافق بھا ئیوں سے کہا ترجمہ میں پہلی شق کی اختیار کیا گیا ہے۔ (قرطبی۔ وحیدی) ف 6 غزی یہ غاز کی جمع ہے جیسا کہ راکع کی جمع رکع آجاتی ہے اور لیجعل اللہ میں لام کا تعلق قالوا سے ہے یعنی ان کا یہ قول ان کے دلوں میں حسرت کا مو جب بن رہا ہے (شو کانی) پس مسلمان کو منع فرمایا کہ تم جلادت سے کام لو اور اس قسم کے کلمات زبان پر مت لا و تاکہ تمہارے اس عدم تائثر کی وجہ سے اس بات سے ان کے دلوں میں حسرت پیدا ہو (المنار) اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لام عاقبت کاہو اور اس کا تعلق لاتکونو صغیہ نہیں سے ہو یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے ضعف اعتقاد کی وجی سے اس قسم کے کلمات ان کی زبان پر جا ری کردیتے ہیں تاکہ وہ ساری عمر اسی ہی واہی تبا ہی باتیں کر کے اپنے مقتول بھا ئیوں پر پچھتاتے رہیں۔ پس لاتکو نوا فرماکر مسلما نوں کو متنبہ کیا کہ تم اس قسم کے کلمات زبان پر مت لا و ورنہ تم ان کی طرح حسرت وافسوس کی زندگی بسر کرو گے ( المنار۔ وحیدی )