وَقَالُوا لَوْ شَاءَ الرَّحْمَٰنُ مَا عَبَدْنَاهُم ۗ مَّا لَهُم بِذَٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ ۖ إِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ
اور انھوں نے کہا اگر رحمان چاہتا تو ہم ان کی عبادت نہ کرتے۔ انھیں اس کے بارے میں کچھ علم نہیں، وہ تو صرف اٹکلیں دوڑا رہے ہیں۔
ف 7 یہ اپنی گمراہی اور مشرکانہ گستاخی پر کفار مکہ کا ایک اور استدلال تھا یعنی وہ اپنے آپ کو مجرم سمجھنے کے بجائے سارا الزام تقدیر الٰہی پر دھرتے تھے کہ خدا ہی کی یہ مشیت تھی اور اسی نے ہماری قسمت میں یہ لکھ دیا تھا کہ ہم فرشتوں کودیویاں سمجھ کر ان کی پرستش کریں، تقدیر الٰہی سے اس قسم کا غلط استدلال باطل پر شتوں کا ہمیشہ شیوہ رہا ہے اور آج بھی ہے حالانکہ خدا کی مشیت اور چیز ہے اور اس کی پسند دوسری چیز ہے۔ اگر ایسا ہی ہوتاجیسے یہ مشرک کہتے تھے تو اللہ تعالیٰ کو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر شرک سے روکنے کی کیا ضرورت تھی۔ ( ابن کثیر) ف 8 یعنی وہ تقدیر کی حقیقت کو نہیں سمجھتے اور خدا کی مشیت کو غلط معنی پہناتے ہیں۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں ” یعنی یہ تو سچ ہے کہ بن چاہے خدا کے کوئی چیز نہیں پر اس کا بہتر ہونا نہیں نکلتا۔ اسی نے قوت بھی پیدا کیا اور زہر بھی پر زہرکون کھاتا ہے۔) (موضح) ف 9 یعنی جہالت کی بناء پر ایسی باتیں بناتے ہیں جن کا کوئی سر پر نہیں ہے۔