أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا ۖ فَإِن يَشَإِ اللَّهُ يَخْتِمْ عَلَىٰ قَلْبِكَ ۗ وَيَمْحُ اللَّهُ الْبَاطِلَ وَيُحِقُّ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
یا وہ کہتے ہیں کہ اس نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہے، سو اگر اللہ چاہے توتیرے دل پر مہر کر دے اور اللہ باطل کو مٹا دیتا ہے اور حق کو اپنی باتوں کے ساتھ ثابت کردیتا ہے، یقیناً وہ سینوں کی بات کو خوب جاننے والا ہے۔
ف 8 یعنی نبوت کا جھوٹا دعویٰ کردیا اور قرآن خود تصنیف کر کے خدا کی طرف منسوب کردیا۔ ف 9 یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب کو مائوف کر دے اور اب تک اتارا ہوا سارا قرآن سلب کرلے، مطلب یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ الزام قطعی غلط ہے۔ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا پر ادنیٰ سا بہتان بھی باندھتے تو وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہرگز پنپنے نہ دیتا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوری طرح انتقام لیتا۔ ( نیز دیکھئے الحاقہ : 44، 47) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” یعنی اللہ اپنے اوپر کیوں جھوٹ بولنے دے۔ دل کو بند کر دے مضمون نہ آوے“۔ ف 10 یعنی اللہ تعالیٰ کا قاعدہ ہے کہ وہ باطل کو پائیداری نہیں بخشتا اور آخر کار اپنے کلام ہی کے ذریعہ ( یعنی قرآن اتار کر) حق ہی کو غالب کر کے چھوڑے گا، اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کافروں کے جھوٹے الزامات کی ہرگز پروا نہ کریں اور اپنی دعوت کا کام جاری رکھیں۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” اور چاہے تو کفر کو مٹا دے بن پیغام بھیجے۔ مگر وہ اپنی باتوں سے دین ثابت کرتا ہے اس اسطے نبی پر کلام بھیجتا ہے“ اس صورت میں ( ویمح اللہ الباطل) کا عطف یختم پر ہوگا اور پہلی صور میں (قلبک) پر کلام تمام ہوگا اور ( ویمح الباطل) جملہ مستانفہ ( کذافی القرطبی) ف 11 یعنی وہ جانتا ہے کہ جو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ الزام لگا رہے ہیں وہ کن فاسد ارادوں سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ الزام لگا رہے ہیں ان کی سزا یقینا انہیں مل کر رہے گی۔