ذَٰلِكَ الَّذِي يُبَشِّرُ اللَّهُ عِبَادَهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ۗ قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ ۗ وَمَن يَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَّزِدْ لَهُ فِيهَا حُسْنًا ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ شَكُورٌ
یہ ہے وہ چیز جس کی خوشخبری اللہ اپنے ان بندوں کو دیتا ہے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے۔ کہہ دے میں تم سے اس پر کوئی اجرت نہیں مانگتا مگر رشتہ داری کی وجہ سے دوستی۔ اور جو کوئی نیکی کمائے گا ہم اس کے لیے اس میں خوبی کا اضافہ کریں گے۔ یقیناً اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت قدردان ہے۔
ف 7 یعنی اس تبلیغ رسالت پر میں تم سے کسی دنیوی مفاد کا طالب نہیں ہوں مگر اتنا تو کرو کہ قرابت کا پاس رکھو اور مجھے ناحق نہ ستائو۔ آیت کے یہ معنی صحیحین اور حدیث کی دوسری کتابوں میں حضرت ابن عباس (رض) سے نقول ہیں اور یہی راحج ہیں۔ شاہ صاحب (رح) نے بھی اپنی توضیح اسی کو اختیار کیا ہے۔ بعض نے قربی سے اطاعت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا تقریب مراد لیا ہے اور یہ معنی سورۃ فرقان کی آیت 57 کے مطابق ہیں۔ بعض مفسرین نے ” المودۃ فی القربی“ کے یہ معنی کئے ہیں کہ ماسواء اس کے کہ ” میرے اہل بیت سے محبت کرو“ بلا شبہ اہل بیت کی محبت و تعظیم اپنی جگہ پر ہے اور ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔ مگر آیت کے یہ معنی کسی اعتبار سے بھی صحیح نہیں ہیں خصوصاً جبکہ یہ آیت مکی ہے اور جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت علی (رض) اور فاطمہ (رض) کا نکاح تک نہیں ہوتا تھا کجا کہ ان کے ہاں اولاد ہوتی۔ دوسرا یہ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنے ” اہل بیت“ سے محبت کا مطالبہ کفار قریش سے کرنا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان رفیع کے بھی مناسب نہیں ہے۔ ( ابن کثیر وغیرہ)