وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ اللَّهُ حَفِيظٌ عَلَيْهِمْ وَمَا أَنتَ عَلَيْهِم بِوَكِيلٍ
اور وہ لوگ جنھوں نے اس کے سوا کوئی اور کار ساز بنا لیے اللہ ان پر نگران ہے اور تو ہرگز ان کا کوئی ذمہ دار نہیں۔
ف 9 ” اولیاء“ ( سرپرستوں) سے مراد وہ بت اور دیوتا ہیں جن کی مشرکین پوجا کرتے تھے۔ ف 10 ” حفیظ“ کے معنی حفاظت کرنے والا اور اعمال کا حساب رکھنے والا دونوں ہیں یہاں چونکہ ان کے ساتھ علیھم ( ان پر) کا لفظ استعمال ہوا اس لئے اس کے دوسرے ہی معنی مراد لئے جاسکتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس ان کے تمام اعمال حساب کی فرض سے محفوظ ہیں وہ عنقریب انہیں بدلہ دے گا۔ ف 11 کہ وہ اگر راہ راست پر نہ آئیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر گرفت ہو۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمہ صرف ہمارا پیغام پہنچا دینا ہے۔ اس سے مقصود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ہے کہ ان کافروں کے ایمان نہ لانے پر کبیدہ خاطر نہ ہو۔