سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ ۗ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ
عنقریب ہم انھیں اپنی نشانیاں دنیا کے کناروں میں اور ان کے نفسوں میں دکھلائیں گے، یہاں تک کہ ان کے لیے واضح ہوجائے کہ یقیناً یہی حق ہے اور کیا تیرا رب کافی نہیں اس بات کے لیے کہ بے شک وہ ہر چیز پر گواہ ہے۔
ف 1 انہ کی ضمیر قرآن اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے بھی ہو سکتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے لئے بھی پہلی صورت میں آیات سے مراد فتوحات ہونگی اور مطلب یہ ہوگا کہ عنقریب ہی جب گرد و پیش کے ممالک اور خود ان ( قریش) پر فتوحال حاصل ہوں گی ( جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور خلفائے راشدین (رض) کے عہد میں حاصل ہوئیں) تب انہیں یقین حاصل ہوگا کہ قرآن یا پیغمبر بر حق تھے اور یہ ناحق ان کی تکذیب کرتے رہے ہیں اور دوسری صورت میں یہ ہوگا کہ اگر یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے ان دلائل پر غور کریں جو خود ان کے اندر اور باہر آفاق میں پائے جاتے ہیں تو ان کو اللہ کے یکتا اور خالق و مالک ہونے کا یقین ہوجائے۔ آفاق میں دلائل سے مراد سورج چاند وغیرہ ہیں۔ پہلے مطلب کو ابن جریر (رح) نے اختیار کیا ہے اور دوسرے مطلب کو بعض تابعین علمائے تفسیر نے ترجیح دی ہے۔ ( قرطبی، شوکانی) ف 2 یعنی اسے ہر چیز کا حال معلوم ہے۔ اس بناء پر اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعوائے نبوت میں معاذ اللہ جھوٹے ہوتے تو وہ ہرگز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کامیاب نہ ہونے دیتا۔