مِن دُونِ اللَّهِ ۖ قَالُوا ضَلُّوا عَنَّا بَل لَّمْ نَكُن نَّدْعُو مِن قَبْلُ شَيْئًا ۚ كَذَٰلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ الْكَافِرِينَ
اللہ کے سوا۔ کہیں گے وہ ہم سے گم ہوگئے، بلکہ ہم اس سے پہلے کسی چیز کو نہیں پکارتے تھے۔ اسی طرح اللہ کافروں کو گمراہ کرتا ہے۔
ف ٥ یعنی وہ مشکل وقت میں ہمیں چھوڑ کر ایسے غائب ہوگئے جیسے دنیا میں ہم نے انہیں پکارا ہی نہ تھا اور وہ ہمیں جانتے تک نہ تھے۔ یہ مطلب اس صورت میں ہے جس ” بل“ کا ترجمہ ” گویا کہ“ کیا جائے اور اگر اس کا ترجمہ ” بلکہ“ کیا جائے جو اس کا معروف ترجمہ ہے تو مطلب یہ ہوگا ” بلکہ ہم دنیا میں کسی چیز کو سرے سے پکارتے ہی نہ تھے“۔ یعنی گھبراہٹ چیز کو سرے سے پکارتے ہی نہ تھے۔ جیسا کہ دوسری آیات میں ہے (واللہ ربنا ما کنا مشرکین) تیسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اب ہم پر یہ بات کھل گئی ہے کہ ہم دنیا میں کسی شی ( چیز) کو نہیں بلکہ لا شی ( نا چیز) ہستیوں کو پکارا کرتے تھے یعنی ہماری محنت رائیگاں گئی۔ ( جامع البیان وغیرہ) ف ٦ یعنی ان کے حواس باختہ کردیتا ہے اور وہ کوئی ڈھنگ کی بات نہیں کرسکتے۔ یہ سزا ہے ان کے شرک کی۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : اول منکر ہوچکے تھے کہ ہم نے شرک نہیں پکڑا۔ اب گھبرا کر منہ سے نکل جاو گا پھر سنبھل کر انکار کریں گے تو وہ انکار ان کا اللہ نے بچلا دیا اس حکمت سے۔ ( موضح)