لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ
تیرے اختیار میں اس معاملے سے کچھ بھی نہیں، یا وہ ان پر مہربانی فرمائے، یا انھیں عذاب دے، کیوں کہ بلا شبہ وہ ظالم ہیں۔
ف 3 اس آیت میں پیغمبر سے فرمایا کہ بندے کو اختیار نہیں ہر قسم کے اختیار رات اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ (ازموضح) تفاسیر میں ہے کہ احد کے دن جب آپ ﷺ کے دندان مبارک شہید ہوگئے اور آپ ﷺ کی چہرہ مبارک زخمی ہوگیا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کیف یفلح قوم شجو ابیتھم اور بخاری میں ہے کہ آپ ﷺ نے نمازوں میں قنوت بھی شروع کردی جس میں نام لے کر مشرکین پر لعنت بھجتے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور آپ ﷺ نے دعاقنوت ترک کردی اور یہ وقعہ ہے کہ جب کے نام لے کر آپ ﷺ بدعا کرتے تھے وہی قبلیے بعد میں مسلمانوں ہوگئے۔ اسی طرح ااو یتوب علیھم کا منظر سامنے آگیا ابن کثیر ،۔ قرطبی) جنگ احد کے تذکرہ میں سود کی حرمت کی حکم بظاہر بے ربط سا معلوم ہوتا ہے مگر علما نے لکھا ہے کہ اوپر جہاد میں فشل نامردی کا ذکر ہوا ہے اور سود خواری سے قوم میں دھن اور بزدلی پیدا ہوتی ہے خود غرضی اور بخل کا جذبہ فروغ پا جاتا ہے۔ اور سود خوار قوم جہاد کے قابل نہیں رہتی اور پھر انصار کے یہود کے ساتھ سودی لین دین کے تعلقات تھے اور احد میں منافقین یہود کی وجہ سے نقصان پہنچا تھا گویا اس کو حرام قرار دیکر ان تعلقات کو ختم کردیا۔ ( حواشی مختلفہ) زمانہ جا ہلیت میں بہت سے لوگ دوسروں کو سودی قرضے دیا کرتے جب قرضہ کی میعاد ختم ہوجاتی تو مقروض سے کہتے قرض اد اکر و ورنہ سو میں اضافہ کرو۔ قرض ادا نہ کرنے کی صورت میں میعاد میں توسیع کردی جاتی اور سود کی مقدار اصل زرسے بھی کئی گنا زیادہ ہوجاتی اور یہ سود تجارتی اور غیر تجارتی دونوں طرح کا ہوتا تھا۔ جیسا کہ آیت کی تفسیر کے تحت تابعین نے تصریح کی ہے سودی کاروبار کی اس بھانک صورت حال کی طرف قرآن نے اضعافا مضا فعتہ کے الفاظ سے اشارہ فرمایا ہے ورنہ یہ ملطب نہیں ہے کہ مرکب سود حرام ہے اور سادہ جائز ہے۔ اسلام میں ہر قسم کا سود حرام ہے اور اس کا ادنی ترین گناہ ماں سے بد کاری کے برابر ہے۔ باقی دیکھئے بقرہ آیت 275 شوکانی ،۔ ابن کثیر )