أَسْبَابَ السَّمَاوَاتِ فَأَطَّلِعَ إِلَىٰ إِلَٰهِ مُوسَىٰ وَإِنِّي لَأَظُنُّهُ كَاذِبًا ۚ وَكَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِفِرْعَوْنَ سُوءُ عَمَلِهِ وَصُدَّ عَنِ السَّبِيلِ ۚ وَمَا كَيْدُ فِرْعَوْنَ إِلَّا فِي تَبَابٍ
آسمانوں کے راستوں پر، پس موسیٰ کے معبود کی طرف جھانکوں اور بے شک میں اسے یقیناً جھوٹا گمان کرتا ہوں۔ اور اس طرح فرعون کے لیے اس کا برا عمل خوشنما بنا دیا گیا اور وہ سیدھی راہ سے روک دیا گیا اور فرعون کی تدبیر تباہی ہی میں تھی۔
ف ٢ یعنی موسیٰ جو دعویٰ کرتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں یا یہ کہ میرا خدا آسمانوں کے اوپر عرش پر ہے تو میرے گمان میں وہ جھوٹا ہے۔ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں سے اوپر عرش پر ہے اس پر سب انبیاء ( علیہ السلام) و رسل ( علیہ السلام) اور صحابہ (رض) و تابعین (رح) اور ائمہ دین (رح) کا اتفاق ہے۔ ” غنیہ“ میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کا آسمان پر ہونا ہر آسمانی کتاب میں مذکورہ ہے جو کسی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کی گئی۔ نیز دیکھئے قصص ٣٨ ( وجیز و حاشیہ جامع وغیرہ) ف ٣ برے کاموں سے مراد کفرو شرک کے کام ہیں۔ بھلے کر دکھانے کا مطلب یہ ہے کہ شیطان نے اس کی عقل مار دی، یہاں تک کہ وہ ان کاموں کو اچھا سمجھتے ہوئے ان پر چلتا رہا۔ ف ٤ یعنی اس نے جتنی چالیں چلیں سب اس کی تباہی کا سبب بنتی چلی گئیں۔ یہی حال ہر جھوٹے اور مکار آدمی کا ہوتا ہے۔