أَوَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
اور کیا انھوں نے نہیں جانا کہ بے شک اللہ رزق فراخ کردیتا ہے جس کے لیے چاہتا ہے اور تنگ کردیتا ہے۔ بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں جو ایمان رکھتے ہیں۔
ف ٩ یعنی روزی کی تنگی اور کشائش اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے جس کی حکمت ہماری سمجھ سے بالا تر ہے۔ اس کی کمی بیشی کا مدار ہرگز آدمی کے علم و عقل اور ہنر مندی پر نہیں ہے۔ کتنے عقل مند لوگ رات دن فکر معاش میں سر گردان رہتے ہیں مگر اتنا بھی نہیں پاتے جس سے اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پال سکیں اور کتنے جاہل نادان ہیں جو بے فکر وسعی لاکھوں روپے کے مالک ہیں اور نہ اسکی کمی بیشی کا مطلب ہے کہ جس کو زیادہ روزی دی جا رہی ہے وہ حق تعالیٰ کا پسندیدہ اور جسے کم روزی دی جا رہی ہے وہ اس کی غیر پسندیدہ بندہ ہے۔ بعض اوقات کسی آدمی کو زیادہ روزی اس لئے دی جاتی ہے کہ اس کا امتحان لیا جائے کہ آیا وہ شکر کرتا ہے یا نا شکری پر اتر آتا ہے اور کسی کو فقرہ فاقہ میں اس لئے مبتلا کیا جاتا ہے کہ اس کا امتحان لیا جائے کہ آیا وہ صبر کرتا ہے یا اللہ تعالیٰ کو کو سنے پر اتر آتا ہے؟