فَغَفَرْنَا لَهُ ذَٰلِكَ ۖ وَإِنَّ لَهُ عِندَنَا لَزُلْفَىٰ وَحُسْنَ مَآبٍ
تو ہم نے اسے یہ بخش دیا اور بلاشبہ اس کے لیے ہمارے پاس یقیناً بڑا قرب اور اچھا ٹھکانا ہے۔
ف ٤ ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت دائود ( علیہ السلام) سے کوئی قصور سر زد ہوگیا تھا جس پر متنبہ کرنے کے لئے دو فرشتے مقدمہ لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ یہ قصور کیا تھا؟ مفسرین نے اس بارے میں متعدد اقوال نقل کئے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں ” اور یا“ نامی ایک شخص تھا جس کی بیوی سے نکاح کرنے کے لئے حضرت دائود ( علیہ السلام) نے اسے جنگ کے محاذ پر بھیج دیا۔ چنناچہ وہ قتل ہوگیا تو نکاح کرلیا مگر یہ روایت بجیع الصور اسرائیلیات سے مآخوذ ہے اور اس لئے بھی نا قابل اعتبار ہے کہ اس سے ایک نبی کی عصمت پر دھبہ آتا ہے۔ قرآن کے اسلوب بیان سے جو اصل بات معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت دائود ( علیہ السلام) نے اس عورت سے نکاح کرنے کیلئے اس کے خاوند سے طلاق کا مطالبہ کیا ہوگا جو اگرچہ گناہ نہیں ( بشرطیکہ جبر نہ ہو) مگر ایک نبی کی شان کے منافی ہے، اس لئے قرآن نے اسے قصور قرار دیکر حضرت دائود کے لئے معافی کا اعلان کردیا۔ مقدمہ کی روداد میں ” و عزنی فی الخطاب“ اور ” لقد ظلمک بسوال“ کے الفاظ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت دائود ( علیہ السلام) کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے دوسرے فریق کے بیانات سنے بغیر ہی فیصلہ کردیا تھا۔ کماھر بہر صورت حضرت دائود ( علیہ السلام) سے کوئی ایسا جرم سر زد نہیں ہوا تھا جو انبیاء ( علیہ السلام) کی عصمت کے منافی ہو۔ واللہ اعلم ( ابن کثیر وغیرہ)