الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَىٰ أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُم بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ
آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے باتیں کریں گے اور ان کے پاؤں اس کی گواہی دیں گے جو وہ کمایا کرتے تھے۔
ف ٢ یہ صورت حال ان کفار اور منافقین کو پیش آئے گی جو اپنے جرائم کا اقبال کرنے سے انکار کریں گے۔ فرشتوں کی گواہی اور نامہ اعمال کی صحت کو جھٹلائیں گے تو ان کے ہاتھ پائوں ان کے خلاف شہادت دیں گے۔ دوسری آیات میں آنکھ، کان، زبان اور چمڑوں کی شہادت کا بھی ذکر ہے۔ ( دیکھئے سورۂ نور ٢٤، حم السجدہ آیت ٢٠) حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ بندہ قیامت کے دن اپنے برے اعمال سے انکار کرے گا اور عرض کردے گا کہ ” اے اللہ ! میں تو اپنے خلاف صرف اسی کی گواہی قبول کروں گا جو میرا اپنا ہو“۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ تیرے خلاف خود تیری اور تجھ پر مقررفرشتوں کی گواہی کافی ہے “۔ پھر اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کے ہاتھ پائوں کو حکم ہوگا کہ گواہی پیش کرو۔ چنانچہ وہ اس کے کرتوتوں کی ساری روداد پیش کریں گے، تب بندہ ان سے کہے گا ” جائو مجھ سے دور ہوجائو میں تو جو کچھ کرتا تھا تمہارے ہی بچانے کے لئے کرتا تھا‘۔ ( شوکانی، ابن کثیر) تنبیہ۔ منہ پر مہر کردینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے اختیار سے کلام نہیں کرسکیں گے۔