وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۚ وَإِن تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلَىٰ حِمْلِهَا لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۗ إِنَّمَا تُنذِرُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُم بِالْغَيْبِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ ۚ وَمَن تَزَكَّىٰ فَإِنَّمَا يَتَزَكَّىٰ لِنَفْسِهِ ۚ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ
اور کوئی بوجھ اٹھانے والی (جان) کسی دوسری کا بوجھ نہیں اٹھائے گی اور اگر کوئی بوجھ سے لدی ہوئی (جان) اپنے بوجھ کی طرف بلائے گی تو اس میں سے کچھ بھی نہ اٹھایا جائے گا، خواہ وہ قرابت دار ہو، تو تو صرف ان لوگوں کو ڈراتا ہے جو دیکھے بغیر اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو پاک ہوتا ہے تو وہ صرف اپنے لیے پاک ہوتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
ف ٤ بوجھ سے مراد گناہوں کا بوجھ ہے۔ یہ آیت اس آیت کے منافی نہیں ہے جس میں ارشاد ہے۔ ( ولیحملن اتقالھم و اتقالا مع القالھم ) ( اور وہ ضرور اپنے بوجھ اٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ کچھ اور بوجھ) کیونکہ وہ جودو طرح کے بوجھ اٹھائیں گے وہ ان کے اپنے ہی ہوں گے، ایک ان کے خواہ گمراہ ہونے کا اور دوسرا اپنے علاوہ دوسروں کو گمراہ کرنے کا۔ جیسا کہ ایک حدیث میں ہے : (من سن سنۃ سیۃ فعلیہ وزرھا ووزرمن عمل بھا الی یوم القیامۃ) یعنی ” جس نے کوئی برا طریقہ جاری کیا اس پر اس کا اور ان تمام لوگوں کا بوجھ ہے جو قیامت تک اس پر عمل کریں“۔ (فتح البیان) ف ٥ حدیث میں ہے : باپ بیٹے کے گناہ میں نہ پکڑا جائے گا اور نہ بیٹا باپ کے گناہ میں مآخوذ ہوگا۔ (لا یجنی والد علی ولدہ ولا مولود علی والدہ) (شوکانی بحوالہ ترمذی، لسائی) ف ٦ یا تنہائی میں جہاں کوئی انہیں دیکھنے والا نہیں ہوتا وہ خدا سے ڈرتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ڈرانے سے وہی لوگ فائدہ حاصل کرسکتے ہیں جن کے دل میں خدا کا ڈر ہے اور پھر عمل صالح کے زیور سے بھی آراستہ ہیں۔ ( کبیر) ف ٧ یعنی محسن کو اس کی نیکی کا ثمرہ ملے گا اور اس کا ظہور گو اس دنیا میں نہیں ہوتا مگر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے پاس پہنچ کر تو اپنی نیکیوں کا ثمرہ حاصل کر ہی لے گا جیسا کہ گناہ کی سزا اس دنیا میں پوری نہیں ملتی مگر قیامت کے دن اس کی پوری سزا مل کر رہے گی۔ ( کبیر)