وَمَا أَرْسَلْنَا فِي قَرْيَةٍ مِّن نَّذِيرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوهَا إِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُم بِهِ كَافِرُونَ
اور ہم نے کسی بستی میں کوئی ڈرانے والا نہیں بھیجا مگر اس کے خوشحال لوگوں نے کہا بے شک ہم اس چیز کے جو دے کر تم بھیجے گئے ہو، منکر ہیں۔
ف 4 یعنی ہم تمہاری دعوت قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی مخالفت پر مغموم نہ ہوں کیونکہ سب سے پہلے ہر نبی كی دعوت کا مقابلہ اور مخالفت اہل ثروت و سیاست نے کی اور ابتداء میں ہر نبی کے تابع غریب اور کمزور قسم کے لوگ ہوئے ہیں۔ قرآن نے اس حقیقت کو بار بار دہرایا ہے اور یہی بات ہر قل نے ابو سفیان (رض) اور ان کے ساتھیوں سے اس وقت کہی جب اس کے دریافت کرنے پر ابو سفیان نے بتایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کرنے والے غریب اور معمولی قسم کے لوگ ہیں۔ مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں دو شخص تھے، ان میں سے ایک مکہ سے باہر ساحل کی طرف چلا گیا اور دوسرا مکہ میں رہ گیا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد اس ساحلی دوست نے اپنے ساتھی کو لکھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کچھ حالات لکھ کر بھیجے، اس نے لکھا کہ مکہ کے سردار تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کر رہے ہیں اور صرف غریب اور مسکین قسم کے لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کر رہے ہیں وہ مکہ آیا اور مسلمان ہوگیا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے پوچھا کہ تمہیں کیسے معلوم ہوگیا کہ میں واقعی اللہ کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوں ؟ وہ بولا ” جب بھی کوئی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دنیا میں آیا تو سب سے پہلے غریب اور مسکین لوگ ہی اس کے ساتھ ہوئے“۔ اس کے بعد جب یہ آیت اتری تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص کو بلا بھیجا اور فرمایا کہ ” اللہ تعالیٰ نے تمہاری بات کی تصدیق فرما دی“۔ ( ابن کثیر)