وَقَالَت طَّائِفَةٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ آمِنُوا بِالَّذِي أُنزِلَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَجْهَ النَّهَارِ وَاكْفُرُوا آخِرَهُ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ
اور اہل کتاب میں سے ایک گروہ نے کہا تم دن کے شروع میں اس چیز پر ایمان لاؤ جو ان لوگوں پر نازل کی گئی ہے جو ایمان لائے ہیں اور اس کے آخر میں انکار کردو، تاکہ وہ واپس لوٹ آئیں۔
ف 5 اہل کتاب کی مذہبی شقاوتوں کی طرف اشارہ ہے اوپر کی آیت میں علمائے یہود کی یہ شقاوت بیان کی گئی ہے کہ وہ آنحضرﷺ کی صداقت کے دلائل جان لینے کے باوجود کفر کر رہے ہیں۔ اب یہاں بتایا جا رہا ہے کہ حق کو باطل کے ساتھ ملانا اور حق کو چھپا نا ان کا عام شیوہ بن چکا ہے۔ پہلی آیت میں ان کی گمراہی کا بیان تھا اور اس آیت میں دسروں کو گمراہ کرنے کا ذکر ہے۔، دیکھئے سورت بقرہ آیت 42،(کبیر، ترجمان) یہ مقام عبرت ہے کہ ہمارے دور کے تجدد زدہ حضرات بھی دینوی اور مادی اغراض و مصالح کے پیش نظر قرآن مجید کے ساتھ وہی سلوک کر رہے ہیں جو ان کے پیش رو یہود ونصاری ٰ تو رات وانجیل کے ساتھ کرتے رہے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے بالکل صحیح فرمایا ہے لتتعن سنن من کان قبلکم۔ کہ تم لاز ما پہلی امتوں کے نقش قدم چلے گے۔ (م۔ ع) ف 6 کمزور دل مسلمانوں کے دلوں میں اسلام کے متعلق شکوک وشہبات پیدا کرنے کے لیے یہود مختلف سازشیں کرتے رہتے تھے یہ بھی اسی سلسلہ کی ان کی ایک سازش کا بیان ہے کہ صبح کے وقت قرآان اور پیغمبر پر ایمان کا اظہار کرو اور شام کو کفر وانحراف کا اعلان کردو۔ ممکن ہے اس طریقہ کے اختیار کرنے سے بعض مسلمان بھی سوچنے لگیں کہ آخر یہ پڑھے لکھے مسلمان ہونے کے بعد اس تحریک سے الگ ہوگئے ہیں تو آخر انہوں نے کوئی خرابی یا کمزور پہلو ضرور دیکھا ہوگا َ؟۔ ( ابن کثیر، شوکانی)