فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَىٰ مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنسَأَتَهُ ۖ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَن لَّوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ
پھر جب ہم نے اس پر موت کا فیصلہ کیا تو انھیں اس کی موت کا پتا نہیں دیا مگر زمین کے کیڑے (دیمک) نے جو اس کی لاٹھی کھاتا رہا، پھر جب وہ گرا تو جنوں کی حقیقت کھل گئی کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو اس ذلیل کرنے والے عذاب میں نہ رہتے۔
ف ١٢ یا ( لوگوں پر) جنوں کا حال کھل گیا۔ ممکن ہے یہ جن اپنے آپ کو غیب دان سمجھتے ہوں یا لوگوں کا ان کے بارے میں عقیدہ ہو کہ وہ غیب کا علم رکھتے ہیں۔ یہ دونوں احتمال صحت کے ساتھ ثابت ہیں۔ ( قرطبی)۔ ف ١٣ کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) پر موت ایسی حالت میں طاری ہوئی جب وہ ایک لاٹھی کے سہارے کھڑے تھے۔ ایک لمبی مدت گزرنے کے بعد اس لاٹھی کو گھن لگ گیا اور وہ اندر سے کھوکھلی ہو کر ٹوٹ گئی تو ان کا جسم زمین پر آرہا، اس وقت جنوں کو معلوم ہوا کہ ان کا انتقال ہوگیا ہے۔ آیت کا یہی مطلب حضرت ابن عباس (رض) اور دوسرے مفسرین (رح) نے بیان کیا ہے۔ اس بارے میں ایک مرفوع بھی آئی ہے مگر اس کی سند صحیح نہیں ہے۔ ( ابن کثیر)