وَلَقَدْ آتَيْنَا دَاوُودَ مِنَّا فَضْلًا ۖ يَا جِبَالُ أَوِّبِي مَعَهُ وَالطَّيْرَ ۖ وَأَلَنَّا لَهُ الْحَدِيدَ
اور بلاشبہ یقیناً ہم نے داؤد کو اپنی طرف سے بڑا فضل عطا کیا، اے پہاڑو! اس کے ساتھ تسبیح کو دہراؤ اور پرندے بھی اور ہم نے اس کے لیے لوہے کو نرم کردیا۔
ف ١ یہ ان کی ” انابت“ کا صلہ تھا۔ ( کبیر) یعنی ان کو علم و نبوت سے سرفراز فرمایا۔ ان پر زبور نازل کی، بادشاہی عنایت کی لوہے کو موم کی طرح نرم کردیا اور بندوں پر پہاڑوں کو تابع کردیا وغیرہ۔ یہ سب چیزیں فضل بزرگی میں داخل ہیں جیسا کہ آگے بیان فرمایا ہے۔ ف ٢ اس کا عطف جبال مناویٰ کے محل پر ہے۔ پہاڑوں اور پرندوں کو خاص طور پر ” تادیب“ کا حکم دینے سے اس ام کا اظہار مقصود ہے کہ جب پہاڑ باوجود اپنی سختی کے اور پرندے باوجود انسان سے نفرت کے حضرت دائود ( علیہ السلام) کے ساتھ تسبیح پڑھنے میں شریک ہوجایا کرتے تھے تو وہ دوسری چیزیں بالا ولی ان کے ساتھ تسبیح پڑھتی تھیں اور یہ بات حضرت دائود ( علیہ السلام) پر خصوصی فضل کے طور پر بیان فرمائی ورنہ پہاڑوں کی تسبیح سے ان کی گونج مراد ہو تو بزرگی کا ذکر بے معنی ہو کر رہ جائیگا۔ ( انبیاء : ٧٩)۔ ف ٣ علمائے تفسیر کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود ( علیہ السلام) کیلئے لوہے کو اس قدر نرم کردیا تھا کہ انہیں اسے آگ میں ڈالنے اور ہتھوڑے سے کوٹنے کی ضرورت نہ پڑتی تھی بلکہ وہ ہاتھ سے دھاگے کی طرح اس جیسے چاہتے بل دے دیتے۔ ( ابن کثیر)