سورة الأحزاب - آیت 56

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر صلوٰۃ بھیجتے ہیں، اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اس پر صلوٰۃ بھیجو اور سلام بھیجو، خوب سلام بھیجنا۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف ١ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ” صلوٰۃ علی النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) “ کے معنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اپنی رحمتوں کی بارش فرماتے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام بلند کرنے والا ملاء اعلیٰ میں مقربین کے سامنے آپ کی تعریف کرنے کے ہیں اور فرشتوں کی صلوٰۃ ان کی دعا اور استغفار ہے اور مومنوں کی صلاۃ اظہار تعظیم اور دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین کے بلند کرے اور آپ کو مقام محمود تک پہنچائے۔ ( ابن کثیر، قرطبی) ف ٢ متواتر صحیح احادیث میں بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو اپنے اوپر صلاۃ پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ احادیث میں ہے کہ صحابہ کرام نے عرض کیا۔” اے اللہ کے رسول ! ہم نے یہ تو جان لیا کہ آپ پر سلام کیسے بھیجیں۔ ( اشارہ ہے تشہد میں السلام علی النبی ورحمۃ اللہ و برکاتہٗ) کی طرف اب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمائیں کہ آپ پر صلوٰۃ کیسے پڑھا کریں۔ فرمایا تم یہ پڑھا کرو ( اللھم صلی علی محمد و علیٰ ال محمد کما صلیت علی ابراہیم) الخ واضح رہے کہ صلوٰۃ علی النبی کے الفاظ مختلف احادیث میں کم و پیش آئے ہیں اور کم سے کم الفاظ ﷺمنقول ہیں اور درود انہی الفاظ کے ساتھ پڑھنا چاہیے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا صحابہ (رض) سے منقول ہوں۔ صحابہ کا کیف نصلی کہنا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قولو الخ فرمانا ہی اس کے ثبوت کے لئے کافی ہے۔ بعض ائمہ (رح) نے اس آیت اور حدیث سے نماز میں درود و کو واجب قرار دیا ہے جو بلحاظ دلیل اقرب ہے۔ نماز کے علاوہ درود شریف پڑھنے کی احادیث میں بہت فضلیت آئی ہے۔ حافظ ابن القیم (رح) اور دیگر ائمہ نے اس پر مستقل کتابیں لکھی ہیں۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ اللہ سے رحمت مانگنی اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور ان کے ساتھ ان کے گھرانے پر بڑی قبولیت رکھتی ہے۔ ان پر ان کے لائق رحمت اترتی ہے اور دس رحمتیں اترتی ہیں مانگنے والے پر جتنا چاہے اتنا حاصل کرے۔ ( فائدہ) صلوٰۃ وسلام کے الفاظ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دوسرے انبیاء کے لئے شعار بن چکے ہیں لہٰذا کسی غیر نبی کو (علیہ السلام) یا (علیہ السلام) کہنا جائز نہیں ہے الا بالتبعیۃ اور امت مسلمہ کا اب تک قاعدہ رہا ہے کہ صحابہ کرام کے لئے (رض) اور بعد کے ائمہ و صلحا کے لئے ” رحمہ اللہ“ وغیرہ الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ اور حدیث ” لقد تحجرت واسعا“ سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت کے لئے بھی دعائے رحمت جائز ہے۔ ( ابن کثیر شیوکانی)