يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ مَن يَأْتِ مِنكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ يُضَاعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِ ۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا
اے نبی کی بیویو! تم میں سے جو کھلی بے حیائی (عمل میں) لائے گی اس کے لیے عذاب دوگنا بڑھایا جائے گا اور یہ بات اللہ پر ہمیشہ سے آسان ہے۔
ف 7 کیونکہ جس کا جتنا مقام بلند ہوتا ہے نافرمانی کی صورت میں اسے سزا بھی اتنی ہی سخت ملتی ہے۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایاİلَأَذَقْنَاكَ ضِعْفَ الْحَيَاةِĬ (کذافی الموضح) اس کا یہ مطلب نہیں کہ ” ازواج مطہرات“ سے نعوذ باللہ برائی کے ارتکاب کا اندیشہ تھا۔ یہ جملہ شرطیہ ہے جس کا تحقق ضروری نہیں، جیسے فرمایاİلَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَĬ (زمر : 65) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ کسی نبی کی بیوی نے زنا کا ارتکاب نہیں کیا، ہاں ایمان و اطاعت میں خیانت کی ہے۔ ( دیکھئے تحریم : 10) بعض نے کہا کہ یہاں ” فَاحِشَةسے مراد نشوز ادر بد سلوکی ہے۔ دراصل اس سے ازواج (رض) مطہرات کو متنبہ کرنا مقصود ہے کہ تمہارا مقام بہت بلند ہے اور دوسری عورتوں کی بنسبت تمہاری ذمہ داری بھی بہت بڑھ گئی ہے لہٰذا تمہارا اخلاقی رویہ پاکیزہ ہونا چاہیے کہ دوسروں کیلئے اسوہ بنے۔ (قرطبی) ف 8 یعنی تمہیں غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ تم نبی کی بیویاں (رض) ہو اور تم پر کوئی گرفت نہ ہوگی۔