وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنكَ وَمِن نُّوحٍ وَإِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۖ وَأَخَذْنَا مِنْهُم مِّيثَاقًا غَلِيظًا
اور جب ہم نے تمام نبیوں سے ان کا پختہ عہد لیا اور تجھ سے اور نوح اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ ابن مریم سے بھی اور ہم نے ان سے بہت پختہ عہد لیا۔
ف ٢ یہ اقرار کہ دین کو قائم کریں گے اور اس میں کوئی تفرقہ نہیں ڈالیں گے۔ ( دیکھئے شوریٰ آیت ١٣) یہ عہد گو تمام انبیاء سے لیا گیا مگر اس آیت میں اور ” شوریٰ“ کی آیت ١٣ میں خاص طور پر پانچ اولوالعزم پیغمبروں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام ذکر کئے جس سے مقصد دوسرے انبیا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ان کی عظمت و فضلیت ظاہر کرنا ہے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو باوجود متأخر زماں ہونے کے یہاں مقدم ذکر کیا کیونکہ آپ سب سے افضل ہیں۔ ( ابن کثیر) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : ” اوپر پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمایا کہ وہ سب لوگوں پر تصرف رکھتا ہے ان کی جان سے بھی زیادہ، یہاں فرمایا کہ یہ درجہ نبیوں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ملا کہ ان پر محنت بھی زیادہ ہے، ساری خلق سے مقابل ہونا اور کسی سے خوف و جا نہ رکھنا“۔ اوپر تو کل اور تقویٰ حکم دیا اب آگے غزوہ احزاب کا ذکر فرما کر تقویٰ اور توکل کے ثمرات ظاہر فرما دیئے۔ (کبیر)