وَلَوْ شِئْنَا لَآتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدَاهَا وَلَٰكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّي لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ
اور اگر ہم چاہتے تو ہر نفس کو اس کی ہدایت دے دیتے اور لیکن میری طرف سے بات پکی ہوچکی کہ یقیناً میں جہنم کو جنوں اور انسانوں، سب سے ضرور بھروں گا۔
ف ١ یعنی یہ کیا بات ہوئی کہ اب تم حقیقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر ایمان لے آئو اور ہم تمہاری سزا موقوف کردیں یا تمہیں دوبارہ دنیا میں بھیج دیں، اس طرح کی جبری ہدایت تو تمہیں پہلے ہی دے سکتے تھے مگر اس سے قیامت یک دن کی جزا سزا بے نتیجہ ہو کر رہ جاتی اور امتحان کا مقصد ہی فوت ہوجاتا۔ اب تو ضروری ہے کہ میرا وہ قول پورا جو میں نے تخلیق آدم کے وقت ابلیس کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا یعنی ( فالحق والحق اقول لا ملان جھنم منک وممن تبعک منعم اجمعین) (ھی : ٨٥) پس حق یہ ہے کہ میں حق بات ہی کہتا ہوں کہ میں جہنم کو تجھ سے اور تیری پیروی کرنے والوں سب سے بھروں گا ( قرطبی، ابن کثیر) ف ٢ یعنی دنیا کے عیش و آرام میں پھنس کر اس دن کے آنے کا خیال تک تمہار ذہنوں میں نہ آتا تھا۔