وَإِذَا غَشِيَهُم مَّوْجٌ كَالظُّلَلِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ فَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ ۚ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا كُلُّ خَتَّارٍ كَفُورٍ
اور جب انھیں سائبانوں جیسی کوئی موج ڈھانپ لیتی ہے تو اللہ کو پکارتے ہیں، اس حال میں کہ دین کو اس کے لیے خالص کرنے والے ہوتے ہیں، پھر جب وہ انھیں بچا کر خشکی کی طرف لے آتا ہے تو ان میں سے کچھ ہی سیدھی راہ پر قائم رہنے والے ہیں، اور ہماری آیات کا انکار نہیں کرتا مگر ہر وہ شخص جو نہایت عہد توڑنے والا، بے حد ناشکرا ہو۔
ف 14 یعنی سمندر میں مصیبت پڑنے کے وقت اللہ تعالیٰ کی بندگی کا جو اقرار اس نے کیا تھا اس پر قائم رہتاہے۔ اصل میں ” اقتصاد“ کے معنی راست روی اور میانہ روی کے ہیں اور یہ لفظ ظالم کے مقابله میں بھی استعمال ہوا ہے۔ (دیکھیے سورۃ فاطر (آیت 32) بعض مفسرین نے اس کے معنی ” کافر“ کئے ہیں کیونکہ سورۃ عنکبوت (آیت 65) میں ہے۔İفَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَĬ ” تو جب اس نے انہیں نجات دی تو اچانک وہ شرک پر اتر آئے۔“ مگر یہ استدلال صحیح نہیں ہے۔ (ابن کثیر) ف 1 یعنی جو مصیبت کا وقت ٹل جانے پر سب کچھ بھول جاتے ہیں اور اپنے قول و قرار کا بھی کوئی پاس نہیں کرتے۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ پہلے جملہ میں’’ مُقْتَصِدٌ “ کے معنی راست روی اختیار کرنے والے ہی کے ہیں۔ (شوکانی)