أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً ۗ وَمِنَ النَّاسِ مَن يُجَادِلُ فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَابٍ مُّنِيرٍ
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ بے شک اللہ نے جو کچھ آسمانوں میں اور جو زمین میں ہے تمھاری خاطر مسخر کردیا اور تم پر اپنی کھلی اور چھپی نعمتیں پوری کردیں، اور لوگوں میں سے کوئی وہ ہے جو اللہ کے بارے میں بغیر کسی علم اور بغیر کسی ہدایت اور بغیر کسی روشن کتاب کے جھگڑا کرتا ہے۔
ف 5 بعض چہروں کو ایسے ضابطہ کا پابند بنایا کہ وہ خود ہی تمہارے مفاد اور خدمت کے کام کر رہی ہیں، جیسے سورج، چاند، ساترے بلکہ فرشتے بھی جو تمہارے حفاظت کرتے ہیں اور بعض کو تمہارے اختیار میں دے دیا کہ ان میں سے جس سے چاہو اور جیسے چاہو فائدہ اٹھائو جیسے جانور زمین اور اس کی تمام چیزیں بہرحال تسخیر کے معنی یہ ہیں کہ تم ان سے مستفید و متمتع ہو رہے ہو۔ ان چیزوں کا انسان کے زیر تصرف ہونا ضروری نہیں ہے کیونکہ یہ تسخیر کے مفہوم سے خارج ہے۔ (شوکانی) ف 6 کھلی نعمتوں سے مراد وہ نعمتیں ہیں جنہیں آدمی اپنی عقل یا جو اس سے جانتا اور محسوس کرتا ہے اور چھپی نعمتوں سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو انسان کے علم و احساس سے بالا ہیں مگر وہ اس کے جسم میں اور باہر کی دنیا میں اس کے مفاد، خدمت اور حفظ و بقا کے لئے کام کر رہی ہیں۔ (شوکانی و کبیر) ف 7 یعنی خلق و تسخیر اور انعام و احسان وغیرہ دلائل سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ثابت ہو چکنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی توحید و صفات میں جھگڑتے اور بحثیں کرتے ہیں کہ خدا ہے بھی کہ نہیں؟ اور ہے تو ایک ہے یا اس کے ساتھ دوسرے بھی خدائی میں شریک ہیں؟ اس کی صفات کیا ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ف 8 یعنی نہ ان کے پاس خود کوئی علم ہے جس کی بنا پر وہ خدا کی حقیقت اور اس کی صفات کو سمجھ سکتے ہیں اور نہ ان کے پاس خود خدا کی بھیجی ہوئی کوئی ایسی کتاب ہے جس سے انہوں نے یہ عقیدہ اخذ کیا ہو بلکہ محض ضد و عناد سے یا تو سرے سے خدا ہی کے منکر ہو رہے ہیں یا پھر خدا کی صفات کی من مانی عقلی تاویلیں کر رہے ہیں۔