ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُم بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ
خشکی اور سمندر میں فساد ظاہر ہوگیا، اس کی وجہ سے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمایا، تاکہ وہ انھیں اس کا کچھ مزہ چکھائے جو انھوں نے کیا ہے، تاکہ وہ باز آجائیں۔
ف 2 خشکی سے مراد زمین، تری سے مراد سمندر اور فساد (خرابی) سے مراد ہر آفت اور صمیبت ہے چاہے وہ جنگ و جدال اور قتل و غارت کی صورت میں نازل ہو یا قحط بیماری فصلوں کی تباہی تنگ حالی سیلاب اور زلزلہ وغیرہ کی صورت میں آیت کا مطلب یہ ہے کہ برو بحر (عالم ہیں جو فتنہ و فساد بپا ہے اور آسمان کے نیچے جو ظلم و ستم ڈھائے جا رہے ہیں یہ سب شرک کی وجہ سے ہیں جب سے لوگوں نے توحید (دین فطرت) کو چھوڑ کر شرک کی راہیں اختیار کی ہیں اس وقت سے یہ ظلم و فساد بھی بڑھ گیا ہے اور شرک جیسے قولی اور اقتصادی ہوتا ہے اسی طرح شرک عملی بھی ہے جو فسق فجور اور معاصی کا روپ دھار لیتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ شرک اعتقادی اور قول تو جہنم میں خلوہ کا موجب ہوگا مگر شرک عملی فسق و معصیت) موجب خلود نہیں بنے گا۔ (کبیر ۔ رازی) ف 3 پوری سزا تو آخرت میں ملے گی مگر یہ تھوڑے سے عذاب کا نمونہ ہے۔ ممکن ہے کہ لوگ شرک و معصیت چھوڑ کر توحید اور اطاعت کی راہ اختیار کریں۔