بِنَصْرِ اللَّهِ ۚ يَنصُرُ مَن يَشَاءُ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ
اللہ کی مدد سے، وہ مدد کرتا ہے جس کی چاہتا ہے اور وہی سب پر غالب، نہایت رحم والا ہے۔
6۔ حضرت ابن عباس (رض)، ابو سعید خدری (رض)، سفیان ثوری (رض) اور بہت سے دیگر اہل علم حضرات کا بیان ہے کہ رومیوں کو ایرانیوں پر یہ غلبہ اسی روز حاصل ہوا جس روز مسلمان بدر میں مشرین مکہ پر فتح یاب ہوئے۔ اسی لئے مسلمانوں کو دوہری خوشی ہوئی اور مشرکوں کو دوہرا غم ہوا۔ (ابن کثیر) بعض تابعین (رح) کا خیال ہے کہ رومیوں کو ایرانیوں پر صلح حدیبیہ کے سال فتح ہوئی۔ ان کا استدلال اس واقعہ سے ہے کہ قیصر روم نے منت مانی تھی کہ جب وہ فتح یاب ہوگا تو حمص سے پیدل چل کر ایلیا (بیت المقدس) کا حج کرے گا۔ چنانچہ جب وہ ایلیا آیا تو ابھی واپس نہ ہوا تھا کہ اسے حضرت وحیہ (رض) بن خلیفہ کے ذریعہ رسول اللہﷺ کا وہ خط ملا جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے نام صلح حدیبیہ کے بعد لکھا تھا۔ اس کے بعد اس نے حضرت ابو سفیان کو بلایا (جو ابھی مسلمان نہ ہوئے تھے اور شام میں بغرض تجارت آئے ہوئے تھے) اور ان سے نبیﷺ کے بارے میں مختلف سوالات کئے جیسا کہ صحیح بخاری میں بالتفصیل مذکور ہے۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رومیوں کو ایرانیوں پر فتح بھی اسی سال ہوئی۔ لیکن اس کا جواب دیا جاسکتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ رومیوں کو پہلی فتح تو بدر کے سال ہوئی ہو مگر دشمن کی فوجوں کا مکمل انخلا اور منت کے پورا کرنے کی نوبت چار سال بعد صلح حدیبیہ ہی کے سال آئی ہو۔ واللہ اعلم۔ (ابن کثیر)