سورة الروم - آیت 4

فِي بِضْعِ سِنِينَ ۗ لِلَّهِ الْأَمْرُ مِن قَبْلُ وَمِن بَعْدُ ۚ وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

چند سالوں میں، سب کام اللہ ہی کے اختیار میں ہے، پہلے بھی اور بعد میں بھی اور اس دن مومن خوش ہوں گے۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

4۔ کئی برس سے ایران اور روم کے درمیان جنگوں کا سلسلہ جاری تھا۔ روم کے اہل کتاب ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کی ہمدردیاں ان کے ساتھ تھیں اور ان کی فتح سے خوش تھے اور ایرانی آتش پرست تھے اس لئے مشرک ان کے غلبہ اور فتح سے خوش ہوتے۔ آخر کار آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے تقریباً پانچ سال بعد، ایران اور روم کے درمیان ایک زبردست معرکہ ہوا جس میں ایرانی غالب رہے، جس پر مشرکین مکہ نے خوشیاں منائیں اور مسلمانوں سے ازراہ فخر و غرور کہنے لگے کہ دیکھا غیر کتاب والے (ایرانی) کتاب والوں یعنی رومیوں پر غالب آگئے۔ اسی طرح ہم بھی تم پر غالب رہیں گے۔ ان باتوں سے مسلمانوں کو سخت صدمہ ہوتا۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں اور قرآن نے ایک نہیں بلکہ دوپیش گوئیاں ایسے حالات میں کردیں جبکہ ظاہری اسباب بالکل ان کے خلاف تھے۔ یعنی یہ کہ ” لضع سنین“ میں نہ صرف رومیوں کو ایرانیوں پر غلبہ حاصل ہوجائے گا بلکہ اس روز مسلمان بھی ایک فتح کی خوشی منائیں گے۔ قرآن کی اس پیش گوئی کے پیش نظر حضرت ابوبکر (رض) نے ایک مشرک سے سو اونٹ کی شرط بھی کرلی (جو اس وقت حرام نہ تھی) ابتدا میں ان کے درمیان تھوڑی مدت (تقریباً پانچ سال) مقرر ہوئی مگر بعد میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اشارے سے یہ مدت نو سال تک بڑھا دی گئی جو کہ ” بضع سنین“ کا صحیح مفہوم تھا چنانچہ ہجرت کے دوسرے سا جنگ بدر کے موقع پر یعنی نو سال کی مدت کے اندر ہی رومی ایرانیوں پر غالب آگئے اور انہوں نے اپنا کھویا ہوا اقتدار واپس لے لیا اور مدائن تک کا علاقہ فتح کرلیا۔ اس پیش گوئی کا مقررہ مدت کے اندر پورا ہونا قرآن کی صداقت کی بہت بڑی دلیل ہے۔ چنانچہ اس موقع پربہت سے لوگ مسلمان ہوگئے۔ یہاں ” ادنی الارض“ سے مراد جزیرۂ عرب کے قریب اذرعات اور بصریٰ کے درمیان کی سرزمین ہے جو ” ادنیٰ شام“ کہلاتی ہے۔ بعض نے فلسطین کا نام بھی ذکر کیا ہے اور یہ سب مواضع دوسرے علاقوں کی بنسبت بلاد عرب سے قریب تر ہیں۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) 5۔ یعنی بعد میں بھی جب وہ غالب ہوں گے۔ اسی کا اختیار ہوگا فتح و شکست اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے وہ جس قوم کو جب چاہتا ہے غالب کرتا ہے اور جب چاہتا ہے مغلوب کرتا ہے۔ (شوکانی) نہ غالب ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہے اور نہ مغلوب ہونا اللہ کے ناخوش ہونے کی۔ (ازموضح بتغییر)