وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ ۚ وَلَوْلَا أَجَلٌ مُّسَمًّى لَّجَاءَهُمُ الْعَذَابُ وَلَيَأْتِيَنَّهُم بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ
اور وہ تجھ سے جلدی عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں اور اگر ایک مقرر وقت نہ ہوتا تو ان پر عذاب ضرور آ جاتا اور یقیناً وہ ان پر ضرور اچانک آئے گا اور وہ شعور نہ رکھتے ہوں گے۔
2۔ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلاتے اور آپ کا مذاق اڑاتے ہوئے بار بار مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر سچے ہو تو ہم پر عذاب کیوں نہیں لے آتے۔ (انفال :32، سورۃ صٓ:16) اور مطالبہ کرتے : امطر علینا حجارۃ اوئتنا بعذاب کہ ہم پر پتھر برسائو یا کوئی دوسری قسم کا عذاب لے آئو۔ (دیکھئے سورۃ انفال :32 و سورۃ ص :16) 3۔ مراد ہے دنیا کا کوئی عذاب، جیسا کہ کفار پر بد ر کے روز آیا۔ کیونکہ وہ اپنے غرور کے سبب مسلمانوں کے غلبہ سے بالکل بیخوف تھے اور ان کے دل میں خیال تک نہ تھا کہ اس طرح ذلت کے ساتھ قتل اور قید و بند کے عذاب میں مبتلا ہوجائیں گے۔ یا قبر اور پھر آخرت کا جس کا سلسلہ مرنے بعد فوراً شروع ہوجائے گا اور موت کے متعلق کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ وہ کب آجائے۔ (کذافی فی الوحیدی)