فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَن قَالُوا اقْتُلُوهُ أَوْ حَرِّقُوهُ فَأَنجَاهُ اللَّهُ مِنَ النَّارِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
پھر اس کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ انھوں نے کہا اسے قتل کر دو، یا اسے جلادو، تو اللہ نے اسے آگ سے بچالیا۔ بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں جو ایمان رکھتے ہیں۔
6۔ ” ان کو آگ میں ڈال دیا“ کی اگرچہ آیت میں تصریح نہیں ہے لیکن بعد کے جملہ ” اللہ تعالیٰ نے اس کو آگ سے بچا دیا“ سے خود بخود نکلتی ہے۔ باقی رہا آگ کا ٹھنڈا ہونا تو اس کی تصریح سورۃ انبیا کی اس آیت میں کردی گئی ہے : قلنا یا نارکونی بردا و سلاما علی ابرایم۔ (آیت :69) ہم نے کہا اے آگ ابراہیم ( علیہ السلام) کے لئے ٹھنڈک اور راحت بن جا۔“ ظاہر ہے کہ اگر حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو آگ میں ڈالا ہی نہ گیا ہو تو آگ کو یہ حکم دینے کے کوئی معنی ہی نہیں ہیں اور نہ یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں آگ سے بچا یا۔7۔ کہ کس طرح حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے اپنے خاندان اور اپنی قوم کی مخالفت مول لی اور بڑی سے بڑی آزمائش کا سامنا کیا حتی کہ آگ میں ڈال دیئے گئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر موقع پر ان کی مدد فرمائی اور آگ تک کو ان پر ٹھنڈک اور آرام بن جانے کا حکم دیا۔ (شوکانی وغیرہ)