قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَىٰ عِلْمٍ عِندِي ۚ أَوَلَمْ يَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ أَهْلَكَ مِن قَبْلِهِ مِنَ الْقُرُونِ مَنْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُ قُوَّةً وَأَكْثَرُ جَمْعًا ۚ وَلَا يُسْأَلُ عَن ذُنُوبِهِمُ الْمُجْرِمُونَ
اس نے کہا مجھے تو یہ ایک علم کی بنا پر دیا گیا ہے، جو میرے پاس ہے۔ اور کیا اس نے نہیں جانا کہ بے شک اللہ اس سے پہلے کئی نسلیں ہلاک کرچکا ہے جو اس سے زیادہ طاقتور اور زیادہ جماعت والی تھیں اور مجرموں سے ان کے گناہوں کے بارے میں پوچھا نہیں جائے گا۔
5۔ لہٰذا اللہ کا مجھ پر کوئی احسان نہیں ہے جو میں اس کا شکر بجا لائوں۔ (کذا فی الموضح) اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ نے مجھے جو مال دیا ہے میرے اوصاف کو جانتے ہوئے دیا ہے۔ اگر میں اس کی نگاہ میں ناپسندیدہ آدمی ہوتا تو وہ مجھے یہ مال کیوں دیتا؟۔ (کذا فی القرطبی) 6۔ مطلب یہ ہے کہ اگر قوت و اقتدار اور مالداری کسی کے پسندیدہ ہونے کی دلیل ہوتی تو اللہ تعالیٰ ان پہلی قوموں کو کیوں تباہ کرتا جو اس سے زیادہ طاقت ور اور مالدار تھیں۔ (قرطبی) 7۔ یعنی ان کے گناہ اتنے زیادہ اور واضح ہونگے کہ پوچھنے کی ضرورت نہ ہوگی یا یہ کہ ان کو معاف کرنے کے لئے نہیں پوچھا جائے گا۔ دیکھئے۔ (النحل :84) بلکہ ان سے سوال ہوگا تو اس لئے کہ انہیں زجر و توبیخ کی جائے جیسے فرمایا : فوربک لنسالنھم اجمعین۔ اور تیرے رب کی قسم، ہم ان سب سے سوال کریں گے۔ (حجر :92) یا یہ کہ انہیں جو سزا دی جائے گی وہ ان سے پوچھ کر تھوڑا ہی دی جائے گی بلکہ فرشتے ان کی صورت دیکھتے ہی پہچان لیں گے کہ یہ مجرم ہیں کیونکہ ان کے چہرے سیاہ اور آنکھیں نیلی ہوں گی۔ دیکھئے سورۃ الرحمن آیت :4۔ سورۃ طہ :102۔ (شوکانی)