فَسَقَىٰ لَهُمَا ثُمَّ تَوَلَّىٰ إِلَى الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ
تو اس نے ان کے لیے پانی پلا دیا، پھر پلٹ کر سائے کی طرف آگیا اور اس نے کہا اے میرے رب! بے شک میں، جو بھلائی بھی تو میری طرف نازل فرمائے، اس کا محتاج ہوں۔
6۔ غالباً مراد یہ ہے کہ سخت بھوکا ہوں کچھ کھانے کو دلا۔ بے آسرا۔ اور بے وطن ہوں کوئی ٹھکانہ دے۔ حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) جب مصر سے بھاگے تو ان کے پاس کھانے کی کوئی چیز نہ تھی۔ سبزیاں اور درختوں کے پتے کھا کر راستہ طے کرتے رہے۔ جب مدین پہنچے اور بکریوں کو پانی پلا کر سایہ میں بیٹھے تو بھوک کے مارے ان کا پیٹ پیٹھ سے لگ رہا تھا۔ اس حال میں انہوں نے یہ دعا کی۔ حضرت حسن بصری سے مروی ہے کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے علم و حکمت کیلئے دعا کی تھی اور ” خیر“ سے یہا یہی مراد ہے۔ (ملخص از ابن کثیر)