لَّا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَن تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ ۗ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ
ایمان والے مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست مت بنائیں اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ کی طرف سے کسی چیز میں نہیں مگر یہ کہ تم ان سے بچو، کسی طرح بچنا اور اللہ تمھیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
ف 1 اس آیت میں کفار کے ساتھ موالات اور دستی رکھنے سے منع فرمایا ہے اس پر سخت وعید سنائی ہے۔ صرف بچاو اور تدبیر سلطنت کی حد تک ظاہری طور پر موالاۃ کی اجا زت دی ہے بشر طیکہ یہ اظہار رول میں نفرت کے ساتھ ہو۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں لقیہ صرف زبان سے اظہار کی حد تک جائز ہے نہ کہ عمل سے۔ نیز حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ بعض یہودی روسا نے انصار کے ایک گروہ سے تعلقات قائم کر رکھے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ کسی موقع پر ہم ان کو دین اسلام سے پھیر نے میں کا میاب ہوجائیں گے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) دراصل یہ اور اس مفہوم کی دوسری آیات اسلامی حکومت کی خارجہ پالیسی وضع کرنے میں اصل کی حثیت رکھتے ہیں۔ مزید تشریح کے لیے دیکھئے ما ئدہ آیت 51۔56 اور مسئلہ تتقیتہ کی تفصیل کے لیے سورت نحل آیت 106 ملا حظہ فرمائیں۔