قِيلَ لَهَا ادْخُلِي الصَّرْحَ ۖ فَلَمَّا رَأَتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً وَكَشَفَتْ عَن سَاقَيْهَا ۚ قَالَ إِنَّهُ صَرْحٌ مُّمَرَّدٌ مِّن قَوَارِيرَ ۗ قَالَتْ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَانَ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
اس سے کہا گیا اس محل میں داخل ہوجا۔ تو جب اس نے اسے دیکھا تو اسے گہرا پانی سمجھا اور اپنی دونوں پنڈلیوں سے کپڑا اٹھا لیا۔ اس نے کہا یہ تو شیشے کا صاف ملائم بنایا ہوا فرش ہے۔ اس (ملکہ) نے کہا اے میرے رب! بے شک میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور میں سلیمان کے ساتھ اللہ رب العالمین کے لیے فرماں بردار ہوگئی۔
5۔ جیسے پانی کی گہرائی معلوم نہ ہو تو اس میں گھسنے والا اپنے پائینچے چڑھا لیتا ہے۔6۔ حضرت سلیمان نے اس سے یہ بات اس لئے فرمائی کہ اسے پتہ چلے کہ جس ساز و سامان پر اسے اور اس کی قوم کو ناز تھا یہاں اس سے بڑھ کر سامان موجود ہے۔ اور ساتھ ہی یہ معلوم ہوجائے کہ سورج اور ستاروں کی چمک سے مرعوب ہو کر انہیں خدا سمجھ لینا ایسا ہی دھوکا ہے جیسے آدمی چمکتے شیشے کو پانی سمجھ بیٹھے۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں :” اس کو اپنی عقل کا قصور اور ان کی (یعنی حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کی عقل کا کمال معلوم ہوا) سمجھی کہ ان میں بھی جو یہ سمجھتے ہیں سو ہی صحیح ہے۔“ (موضح) اسی چیز نے اسے اس اعتراف پر مجبور کیا جو آگے آرہا ہے۔ 7۔ جو اب تک شرک میں مبتلا اور تجھے بھولی رہی۔