إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَذَكَرُوا اللَّهَ كَثِيرًا وَانتَصَرُوا مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا ۗ وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنقَلَبٍ يَنقَلِبُونَ
مگر وہ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اور اللہ کو بہت یاد کیا اور انتقام لیا، اس کے بعد کہ ان پر ظلم کیا گیا اور عنقریب وہ لوگ جنھوں نے ظلم کیا، جان لیں گے کہ وہ لوٹنے کی کون سی جگہ لوٹ کر جائیں گے۔
1۔ یعنی جن شعراء کی مذمت کی گئی ہے ان سے ایسے شعرا مستثنیٰ ہیں جو مومن ہوں، نیک کام کرنے والے ہوں اور اللہ کو بکثرت یاد کرتے ہوں اور اپنے کلام سے ظالموں کے مقابلے میں حق کی حمایت کا کام لیتے ہوں جیسے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں حضرت حسان (رض) ثابت عبد اللہ (رض) بن رواحہ اور کعب (رض) بن مالک اور دیگر صحابہ (رض) کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود ان کی حوصلہ افزائی فرمایا کرتے تھے، چنانچہ ایک موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حسان (رض) کے متعلق فرمایا : اللھم ایدہ بروح القدس۔ اے اللہ ! جبریل ( علیہ السلام) کے ذریعہ اس کی تائید فرما۔ بعض احادیث میں جو شعر کی مذمت کی گئی ہے اس سے مراد وہ شعر ہے جو لغویت، بے حیائی اور فحش کلامی پر مبنی ہو۔ ایک حدیث ہے :” شعر کی حیثیت کلام کی ہے اس کی اچھائی کلام کی اچھائی کی طرح ہے اور اس کی برائی کلام کی برائی کی طرح۔ (شوکانی۔ قرطبی) 2۔ یعنی ان کا انجام کیا ہونے والا ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔