قَالَ هَٰذِهِ نَاقَةٌ لَّهَا شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَّعْلُومٍ
اس نے کہا یہ ایک اونٹنی ہے، اس کے لیے پانی پینے کی ایک باری ہے اور تمھارے لیے ایک مقرر دن کی باری ہے۔
5۔ جیسا کہ دوسری آیات میں اسے بصراحت ایۃ اجینۃ و مبصرۃ یعنی معجزہ فرمایا گیا ہے۔ (دیکھئے سورۃ اعراف آیت 73 و سورۃ ہود آیت 264 بنی اسرائیل آیت 62) اس سے معلوم ہوا کہ وہ عام قسم کی اونٹنی نہ تھی بلکہ اس کی پیدائش اور اس کے ظاہر ہونے میں ضرور کوئی ایسی بات تھی جس کی بنا پر اسے معجزہ قرار دیا گیا۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : ” قوم کے بڑے بڑے سردار جمع ہوئے اور انہوں نے ایک چٹان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت صالح ( علیہ السلام) سے مطالبہ کیا کہ اس چٹان سے ہمارے دیکھتے دیکھتے ایک پوری جسامت کی اونٹنی نکالو جس کی یہ یہ صفات ہوں۔ اس وقت حضرت صالح ( علیہ السلام) نے ان سے پختہ عہد کرلیا کہ اگر ان کی فرمائش پوری کردی جائے تو وہ ایمان لا کر ان کی پیروی اختیار کریں گے۔ جب انہوں نے قول دے دیا تو حضرت صالح ( علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرنے کھڑے ہوئے کہ ان کی فرمائش پوری کردی جائے۔ چنانچہ وہ چٹان جس کی طرف انہوں نے اشارہ کیا تھا یکایک پھٹی اور اس میں سے ان کی مطلوبہ صفات کی اونٹنی ظاہر ہوئی۔ اسے دیکھ کر کچھ لوگ ایمان لے آئے لیکن اکثر اپنے کفر پر جمے رہے۔ اس پر حضرت صالح نے ان سے فرمایا : ” ھذہ ناقۃ الخ“6۔ قرآن کی دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم کو صرف اتنا ہی چیلنج نہ تھا کہ ہر دوسرے روز یہ اونٹنی تمہارے سارے علاقہ کا پانی پئے گی بلکہ یہ چیلنج بھی تھا کہ یہ تمہارے کھیتوں اور باغوں میں جہاں چاہے گی جائے گی اور جو چاہے گی کھائے گی۔ دیکھئے (سورہ اعراف آیت 173 سورۃ ہود آیت 64)